مجھے بولو (BOLU)‘ ترکیہ کے اس علاقے اور اس مصروف دو رویہ سڑک کا نام معلوم نہیں جہاں میں اترتی خنکی اور گہری ہوتی شام میں‘ ایک گوشے میں بینچ پر بہت دیر بیٹھا رہا۔ کبھی مکئی کا بھٹہ‘ کبھی چپس ہاتھ میں لیے۔ کبھی اُٹھ کر چہل قدمی کیلئے کچھ دور نکل جاتا۔ گلیوں‘ محلوں اور دکانوں میں۔ ایک نئے شہر کو اجنبی آنکھ سے دیکھتا اور پھر واپس آ کر اسی بینچ پر بیٹھ جاتا۔ دائیں بائیں لوگ گزر رہے تھے اور ان میں ہر ایک کی الگ دنیا تھی۔ لڑکپن اور جوانی کی یہ عادت سفر میں بہت بار تازہ ہوجاتی ہے۔ کسی ریستوران‘ کسی پارک‘ کسی سڑک کے ایک گوشے میں بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنا اور ان کے چہروں سے ان کے دل کا اندازہ کرنا۔ زمانہ شناسی کی ایک پوری دنیا ہے۔ یہ جو ادھیڑ عمر صاحب موبائل پر بات کرتے تیز تیز قدموں سے چلے جا رہے ہیں‘ ان کے چہرے کی شکنیں بتا رہی ہیں کہ کسی اُلجھن میں ہیں۔ یہ بوڑھا جوڑا جو مجھ سے اگلے بینچ پر ہاتھ میں ہاتھ لیے بیٹھا ہے‘ ان کے چہروں پر لہرے لیتی شانتی بتاتی ہے کہ یہ آج تک ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے۔ یہ جھلائی ہوئی عورت‘ جو بچے کا ہاتھ تھامے کسی سٹور کی طرف جا رہی ہے‘ اسے بچے نے کسی فرمائش سے زچ کر رکھا ہے۔ یہ دو نوجوان کھلاڑی لگتے ہیں جو بھیگی قمیصیں لیے انار کا جوس پی رہے ہیں۔ یہ جو اجنبی زبان بولتا نوجوان جوڑا گزرا ہے شاید روسی ہے۔ ایک دنیا میرے سامنے تھی۔ سامنے اور مجھے چھو کر گزرتی فکرمند‘ بے فکر‘ اکیلی‘ دوستوں کے ساتھ‘ مالدار‘ تنگدست‘ جوان اور بوڑھی دنیا۔ ہمہ جہت‘ ہمہ رنگ‘ ہمہ کیفیت دنیا جسے کسی ایک حالت میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
یاد نہیں کتنی دیر چلتے پھرتے رنگوں سے چھلکتی اس سڑک پر گزری۔ بس یہ یاد ہے کہ جب رات اتنی بھیگ گئی کہ شبنمی قطرے لباس پر محسوس ہونے لگے تو میں وہاں سے اُٹھا اور ایک قریبی مطعم میں داخل ہو گیا۔ جیئر کباب یعنی بھنی ہوئی کلیجی‘ جو سرکے والی سلاد‘ چٹنی‘ پتلی روٹی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے‘ میرا پسندیدہ ترک کھانا ہے۔ ترک لسی ساتھ شامل ہو جائے تو پھر اور کیا چاہیے۔ ہوٹل پہنچا تو تھکن اور نیند بھی میرے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہو گئیں۔ صبح اُٹھا تو ذہن چوکس اور جسم مستعد تھا۔ آج بولو کے جنگل اور جھیلیں دیکھنی تھیں جس کیلئے میں نے ہوٹل والے سے کل ہی بات کر لی تھی۔ اس نے گاڑی سمیت ایک گائیڈ کا انتظام کیا تھا جو ان کا کوئی رشتے دار بھی تھا۔ ناشتہ کرتے علم ہوا کہ گاڑی اور گائیڈ موجود ہیں۔ لیکن حسبِ معمول یہ گائیڈ انگریزی سے ناواقف تھا۔ بولوکے نقشے اور معلومات سے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ شہر کے ایک طرف وہ پہاڑی جنگل ہے جس میں نیشنل پارک ہے اور سات جھیلیں۔ وہاں پہلے جانا ہو گا۔ وہاں گھوم پھر کر واپس شہر کی طرف آنا ہو گا‘ جہاں سے ہم دوسری طرف واقع ابانٹ جھیل جائیں گے۔ گویا یہ سارے دن کا سفر تھا۔ ہم تیار ہو کر چلے تو کچھ ہی دیر میں گائیڈ اور گاڑی کی خوبیاں مجھ پر آشکار ہونا شروع ہو گئیں۔ گرمی کافی تھی اور گاڑی میں اے سی نہیں تھا‘ گاڑی خاصی پرانی تھی جبکہ ڈرائیور خاصا نیا تھا۔ نئے کی پھر بھی خیر تھی لیکن کافی خود سر اور تعاون نہ کرنے والا۔ ایسے ڈرائیور کو یہ سہولت بھی خود بخود حاصل ہو جاتی ہے کہ جب چاہے واضح بات پر بھی سمجھ نہ آنے کی آڑ لے لے۔ جب طرفین ایک دوسرے کی زبان سے آشنا نہ ہوں تو اشارے کام آنے چاہئیں۔ لیکن اس بے نیاز پر یہ بھی کام نہیں کرتے تھے۔ اس سے جھگڑا کرنے کا مطلب تھا اپنا ایک قیمتی دن ضائع کر دینا۔ اس لیے دل کو یہی سمجھا لیا کہ صبر اور شکر کا بہت ثواب ہے۔
بولو شہر سے دس پندرہ کلومیٹر دور میدانی سڑک جھومتی جھامتی پہاڑی سڑک میں تبدیل ہو گئی۔ بل کھاتی‘ پیچ و خم سے گزرتی یہ چھوٹی سڑک گھنے پہاڑی جنگلوں سے گزرتی تھی۔ کہیں کہیں اتنا گھنا جنگل کہ خوف آتا تھا۔ سڑک مسلسل سائے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہاں ہوا بھی ٹھنڈی تھی۔ گاڑیاں کم تھیں اور چونکہ نیشنل پارک تھا اس لیے آبادی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ یہ اگست کا مہینہ تھا لیکن میں نے وہ تصویریں دیکھ رکھی ہیں جب خزاں نومبر دسمبر کے دہکتے سرخ‘ نارنجی‘ آتشی رنگوں سے اس جنگل کوآگ لگا دیتی ہے۔ بار بار گھومتی سڑک کے ساتھ گاڑی گھومنے سے سر درد شروع ہو گیا تھا‘ جو میرا بچپن کا مسئلہ ہے۔ میں نے گاڑی رکوائی۔ ایک پتھر پر بیٹھا‘ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے‘ تازہ وحشی جنگلی ہوا میں سانس لیے۔ اسی دوران ایک سرخ ہرن نے سامنے پیڑوں کے پیچھے سے سر نکالا اور اپنی غزالی آنکھوں سے مجھے ٹکر ٹکر دیکھتا رہا۔ میں نے آہستگی سے کیمرہ سیدھا کیا لیکن اس کیلئے یہ بھی بہت تھا۔ اس نے ایک ہی جست میں رمِ آہو کا مطلب سمجھا دیا۔ دس منٹ کے بعد پھر چلے اور ڈھکی ہوئی پہاڑیوں پر چڑھتی اُترتی سڑک تھکے بغیر چلتی گئی۔ آخر جب جنگل مزید گھنا ہو گیا اور وحشی فضا میں پانی کی ہبکار شامل ہو گئی تو ایک پارکنگ ایریا نظر آیا جس میں کئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک کینٹین بھی موجود تھی۔ یدی گولر نیشنل پارک میں یہ سات جھیلوں کی قیام گاہ تھی۔ یدی گولر یعنی سات جھیلیں۔ گول ترک زبان میں جھیل کو کہتے ہیں۔ بیوک گول‘ ڈیرین گول‘ سیرین گول‘ نازلی گول‘ سازلی گول‘ انچی گول‘ کوچک گول۔
پارکنگ ایریا کے ساتھ ایک بند نما پشتہ تھا۔ میں اس پشتے پر چڑھا اور یکدم گہرے سبز بلکہ زمردی پانی کی چھوٹی سی جھیل میرے سامنے تھی۔ کچھ تو شاید جھیل کا پانی ہی سبز تھا یا تہ میں موجود سبزہ اور کائی اسے سبز بناتے تھے‘ آس پاس کے بلند درخت اس پر سایہ کرتے تھے اور ان کا گہرا سبز بلکہ سیہ مست رنگ جھیل کے پانی میں لہریں لیتا تھا۔ سورج کی کرنیں درختوں کے پیچھے سے کبھی جھیل پر نظر ڈالتیں اور کبھی چرا لیتیں۔ جھیل کا پانی ٹھہرا ہوا نہیں بلکہ ہولے ہولے رواں تھا۔ یہ سانس روک دینے والا منظر تھا۔ جنگل کا سکون اور سکوت فضا سے اُترتا تھا‘ کنارے پر پڑائو ڈالتا تھا اور لہروں کی طرح ہر طرف پھیلتا جاتا تھا۔ درختوں میں سرسراتی ہوا کی سرگوشی اور رواں پانی کے بہتے ہلکے ترنم کے سوا کوئی آواز نہیں تھی۔ کچھ سیاح جوڑے کنارے پر سستا رہے تھے۔ کنارے پر بلند درختوں کے بیچ سے لکڑی کا ایک جیٹی نما پلیٹ فارم پانی کے اندر جا رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سات جھیلیں لینڈ سلائیڈنگ سے بنی تھیں۔ ان کے آس پاس قیام کیلئے خیمے‘ کاروان وغیرہ موجود ہیں۔ کوئی پختہ عمارت مجھے نظر نہیں آئی۔ انسان نے آخر یہ سمجھ تو لیا کہ فطرت کے قریب ترین رہنا ہی دنیا کو خوبصورت رکھنے کا واحد راستہ ہے لیکن دنیا کو بہت برباد اور بدنما کرنے کے بعد۔
یہ چھوٹی چھوٹی سبز جھیلیں قریب قریب ہیں۔ لمبائی چوڑائی کے فرق کے ساتھ ہم رنگ پانی والی جھیلیں۔ میں ڈیرین گول‘ سیرین گول اور کوچک گول سے ہوتا ہوا بیوک گول پہنچا اور یہ مجھے خوبصورت ترین لگی۔ یہ نسبتاً بڑی جھیل تھی اور سیاح بھی زیادہ تھے۔ بچوں کی کھیلتی آوازیں تھیں اور کھانوں کی خوشبو۔ یہ کھانے پکنک پر آئے ہوئے لوگ اپنے ساتھ لائے تھے۔ ایک بڑی سی چٹان آدھی کنارے پر اور آدھی پانی میں تھی جس پر گھنے درختوں نے سایہ کیا ہوا تھا۔ عقب کے جھلمل سبز پانی میں سورج کی کرنیں نہا رہی تھیں اور دوسرے کنارے پر کھڑے درخت ان سنہری دیویوں کے غسل کا منظر دیکھتے تھے۔ ایسا لگا جیسے کہانیوں میں شہزادے کو حسین پری کے رہنے کی جس جھیل کا پتا بتایا جاتا تھا‘ وہ یہی جھیل ہے۔ پری کو ایسی ہی جھیل کے پاس رہنا چاہیے۔ یہ منظر اور یہ لمحہ مبہوت کن تھا۔ میری آنکھ نے اسے محفوظ کر لینے کے بعد کیمرے میں بھی بند کرنا چاہا۔ میں نے ایک خوبصورت ترک جوڑا دیکھا جو اپنی تصویر اس چٹان پر کھنچوانے کیلئے کسی کا منتظر تھا۔ یہی تلاش مجھے بھی تھی۔ ہم نے تصویریں کھینچیں اور کچھ وقت ساتھ گزارا۔ اب میں اس چٹان پر اپنی تصویر دیکھتا ہوں تو بیوک گول کی خوبصورتی میرے کان میں سرگوشی کرتی ہے۔ ''کیا زندگی کبھی دوبارہ اس لمحے میں آنے کی اجازت دے گی؟‘‘ میں چپ رہتا ہوں کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔