"KMK" (space) message & send to 7575

اپنا رانجھا راضی کرنا

اگر میں اس سفر کا دورانیہ ملتان میں اپنے گھر سے لے کر جوہانسبرگ میں ہوٹل کے چیک اِن ہونے تک لگاؤں تو یہ سفر بلامبالغہ 26 گھنٹے پر محیط تھا‘ تاہم اس میں جدہ ایئرپورٹ پر اگلی فلائٹ کے انتظار میں گزارے ہوئے تقریباً ساڑھے نو گھنٹے بھی شامل تھے۔ ایئرپورٹ پر ہمدمِ دیرینہ محمد علی انجم میرا منتظر تھا۔ محمد علی انجم کا تعلق تونسہ کے نواحی قصبے مکول کلاں سے ہے اور قارئین کیلئے میرے دل میں مکول کلاں کی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ لگانا شاید ممکن ہی نہیں۔ میرے پانچویں جماعت کے استاد اور میرے آئیڈیل معلم ماسٹر غلام حسن کا تعلق مکول کلاں سے تھا۔
مجھے میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں سے پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد گھر سے کئی کلو میٹر دور گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں داخل کرا دیا گیا۔ وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ تب ملتان میں دو سرکاری سکول بہت اچھی شہرت کے حامل تھے۔ ایک گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول تھا جہاں سے ابا جی مرحوم نے میٹرک پاس کیا تھا‘ دوسرا گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی تھا۔ ہمارے گھر سے دور ہونے کے باوجود میرے لیے اس سکول کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ایمرسن کالج کی لائبر یری‘ جہاں ابا جی لائبریرین تھے اور اس سکول کا درمیانی فاصلہ شاید سوگز بھی نہیں تھا۔ میں روزانہ صبح ابا جی کے ساتھ ان کے ویسپا سکوٹر پر بیٹھ کر سکول جاتا تھا اور انہی کے ساتھ واپس آتا تھا تاوقتیکہ آٹھویں کلاس کے آخری دنوں میں ابا جی کا پرانا ریلے سائیکل‘ جو گزشتہ کئی سال سے بھائی طارق کے استعمال میں تھا اور جو انہیں نیا سہراب سائیکل ملنے کے بعد بیکار ہو گیا‘ پر میں نے اپنا حقِ شفعہ دائر کیا اور یوں یہ سائیکل مجھے مل گیا۔
معاف کیجئے! میں کہیں کا کہیں نکل گیا۔ بات مکول کلاں والے ماسٹر غلام حسن کی ہو رہی تھی۔ برسوں گزرے میں ملتان ایئرپورٹ پر اپنی لندن جانے والی فلائٹ کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک معقول سے آدمی نے مجھے پوچھا کہ کیا میں خالد مسعود ہوں؟ میں نے کہا: جی ہاں! یہ بدنام زمانہ شخص میں ہی ہوں۔ وہ بڑے تپاک سے میرے گلے لگ گیا اور کہنے لگا: میرا تعلق مکول کلاں سے ہے۔ میں نے دوبارہ اسے گلے لگایا اور کہا: یہ میں تمہیں نہیں بلکہ تصور میں ماسٹر جی سے مل رہا ہوں۔ تم تو اس گاؤں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے محض وسیلہ ہو۔ پھر ہم بیٹھ گئے اور ماسٹر غلام حسن مرحوم کی باتیں شروع ہو گئیں۔ محمد علی انجم نے بتایا کہ اس نے میرے ماسٹر جی کے بارے میں دو کالم پڑھ رکھے ہیں اور اسے میری ماسٹر جی سے محبت اور عقیدت کا بخوبی علم ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کا اور ماسٹر جی مرحوم کا گھر ساتھ ساتھ ہیں۔ میں نے اس سے استانی جی کا حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ماشاء اللہ ٹھیک ہیں اور وہ جب بھی اپنے گاؤں جاتا ہے‘ گاہے استانی جی اور ماسٹر غلام حسن کے بیٹوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ہم دونوں ماسٹر جی سے متعلق اس وقت تک گفتگو کرتے رہے جب تک محمد علی انجم کی فلائٹ کا اعلان نہ ہو گیا۔ ماسٹر جی سے باہمی تعلق نے ہمیں محبت کی ایسی مضبوط ڈور میں باندھا کہ ایئرپورٹ پر ہونے والی یہ ملاقات دوستی کا پیش خیمہ بن گئی۔ اب نہ صرف یہ کہ میں اور محمد علی انجم دوست ہیں بلکہ اس کی بیٹی‘ جو میری بیٹی کی ہم عمر ہے اور اس کا بیٹا حسن جو میرے بیٹے اسد کا ہم عمر ہے‘ آپس میں گہرے دوست ہیں اور ان بچوں کا باہمی رابطہ ہم دونوں دوستوں سے بھی زیادہ ہے اور مجھے محمد علی انجم کی سرگرمیوں سے آگاہی اپنے بچوں کے توسط ہی سے ہوتی ہے۔
رمضان المبارک میں محمد علی انجم کا فون آیا کہ عید کے بعد ساؤتھ افریقہ آ جاؤ۔ اللہ مجھے سفر کا موقع دے اور میں انکار کر جاؤں؟ میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ انجم نے ویزے کی غرض سے دعوتی خط میل کر دیا۔ طے پایا کہ میں مئی کے شروع میں اس کے پاس جاؤں گا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ملتان میں مئی میں گرمی پڑنی شروع ہو جائے گی جبکہ ساؤتھ افریقہ میں سردیوں کا آغاز ہو رہا ہوگا۔ ساؤتھ افریقہ جانے کیلئے یہ بڑا آئیڈیل موسم ہے لیکن مئی کے مہینے میں ساؤتھ افریقہ جائیں تو ایک خسارہ بہرحال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بندہ جیکارانڈا کے درختوں پر کھلنے والے جامنی پھولوں کی قیامت خیز خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔جوہانسبرگ کو وہاں مقامی لوگ مختصر کرکے جو برگ کہتے ہیں۔ اس شہر کے ساتھ لگے ہوئے ''برگ‘‘ کا تعلق گو کہ فارسی والے برگ (پتے) سے ہرگز نہیں ہے مگر اس شہر میں جتنے درخت ہیں‘ اس حوالے سے برگ و بار کے مفہوم و معانی جس طرح آشکار ہوتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ جوہانسبرگ والوں نے برگ کا لفظ فارسی ہی سے مستعار لیا ہے۔ شہرکیا ہے؟ گویا ایک باغ ہے اور باغ بھی ایسا جس میں ہر دوسری سڑک جیکارانڈا کے درختوں کی دو طرفہ قطاروں سے سجی ہوئی ہے۔ جیکارانڈا کا درخت عام دنوں میں تو بڑا عام سا‘ بلکہ عام سے بھی تھوڑا کمتر درجے کا دکھائی دیتا ہے لیکن جب اکتوبر میں اس پر بہار آتی ہے اور پھول اپنا جوبن دکھاتے ہیں تو وہ سڑکیں‘ جن کے دونوں طرف جیکارانڈا کے درخت ہوتے ہیں‘ ایک ایسی سرنگ کا منظر پیش کرتی ہیں جس کی چھت‘ دیواریں اور فرش جامنی رنگ کے پھولوں سے پٹے پڑے ہوتے ہیں۔
جیکارانڈا بنیادی طور پر جنوبی امریکہ اور خاص طور پر وسطی جنوبی امریکہ کا درخت ہے لیکن اپنے جامنی اور نیلے رنگ کے پھولوں کی خوبصورتی کی وجہ سے‘ جو بہار میں کھلتے ہیں‘ دنیا بھر میں بہت مقبول ہے۔ اپنے اصل وطن برازیل کے علاوہ اسے زیادہ پذیرائی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں حاصل ہوئی ہے‘ جہاں یہ جوہانسبرگ کی سڑکوں کے کنارے اس کثرت سے ملتا ہے کہ لگتا ہے یہ یہاں کا مقامی درخت ہے۔ دنیا بھر میں اگر کسی شہر میں اس درخت نے اپنا رنگ جمایا ہے تو وہ جنوبی افریقہ کا انتظامی دارالحکومت پریٹوریا ہے۔ پریٹوریا کو ''جیکارانڈا سٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔
آسٹریلیا میں جیکارانڈا کا پہلا درخت 1850ء میں لگایا گیا۔ یہ قدیم درخت آج بھی سڈنی میں موجود ہے اور اسے رسیوں سے باندھ کر گرنے کے خدشے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز کے شہر گرافٹن میں اکتوبر اور نومبر میں جیکارانڈا فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے علاوہ جیکارانڈا امریکی ریاست کیلیفورنیا‘ ایریزونا‘ فلوریڈا‘ ٹیکساس حتیٰ کہ جزائر ہوائی میں بھی لگائے گئے ہیں۔ جنوبی امریکہ میں جیکارانڈا اپنے وطنِ مالوف برازیل کے علاوہ میکسیکو اور ارجنٹائن میں بھی پایا جاتا ہے۔ ارجنٹائن‘ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں جیکارانڈا پر بہار اکتوبر میں آتی ہے جبکہ میکسیکو‘ سپین‘ پرتگال‘ مالٹا اور قبرص وغیرہ میں جامنی پھولوں کا نظارہ مارچ میں دکھائی پڑتا ہے۔ اور اس تفاوت کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں خطوں میں سردی اور گرمی کا موسم ایک دوسرے سے اُلٹ ہے اور اس درخت کے پھولوں پر جوبن سردیوں کے بعد بہار میں آتا ہے۔ گویا ملتان میں اس پر کاسنی پھول مارچ میں کھلیں گے۔ سوچ رہا ہوں کہ آتے ہوئے اس کے کچھ بیج لیتا آؤں اور ملتان میں دو چار جیکارانڈا لگاؤں مگر اس سے پہلے شوکت گجر کو فون کرکے اس کے بارے میں تکنیکی رائے لوں گا کہ یہ درخت ملتان کیلئے مناسب بھی ہے کہ نہیں؟
ہمارے شجر دشمن معاشرے میں درختوں کا ذکر بہت کم لوگوں کو بھلا لگے گا۔ مجھے علم ہے کہ جن قارئین کو اس قسم کے موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اس وقت پیچ و تاب کھاتے ہوئے اس قسم کا کالم لکھنے پر دل ہی دل میں مجھ پر تبرّا کر رہے ہوں گے مگر مجھے ان کے غصے بھرے جذبات کی قطعاً کوئی فکر نہیں ہے کہ درختوں سے محبت کرنا تو میرے آقاﷺ کی سنت ہے۔ ویسے بھی بندے کو کبھی کبھی ایسے کالم ضرور لکھنے چاہئیں جس سے اس کا اپنا رانجھا راضی ہوتا ہو۔ سو آج تو میں نے اپنا رانجھا راضی کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں