سیاست کی تطہیر کا کوئی امکان‘ کیا کہیں دکھائی دیتا ہے؟
سیاست کی تطہیر سے مراد کیا ہے؟ سیاسی و ریاستی ادارے اُس معاہدے کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دینے لگیں جس پر پوری قوم کا اتفاق ہے۔ یہ آئین ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اِن اداروں کو اس پر آمادہ کون کرے؟ ان سے یہ بات منوانے کی اصل ذمہ داری کس پر ہے؟ میرا جواب ہے: اہلِ سیاست پر۔
سیاست کی تطہیر اصلاً اہلِ سیاست کا کام ہے۔ عقلِ عام کو اس کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ عمارت میں کجی ہو تو سب سے پہلے معمار زیرِ عتاب آتا ہے۔ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ وہی اس کا ذمہ دار ہے۔ ایک عمارت کی تعمیر میں بہت سے ہاتھ شامل ہوتے ہیں۔ نقشہ بنانے والے سے لے کر اینٹ‘ گارا بنانے والے تک‘ سب اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو عمارت بنتی ہے۔ اسکے باوجود لوگ کسی خرابی کا ذمہ دار صرف معمار کو سمجھتے ہیں تو اسکی ایک وجہ ہے۔ یہ وہی ہے جس نے تعمیر کو اپنا اصل کام قرار دیا ہے۔ آخری ذمہ داری اس کی تھی کہ وہ عمارت سازی کے عمل میں شریک‘ سب کرداروں سے کام لیتا۔ اگر کوئی غلطی کا ارتکاب کرتا تو وہ تنبیہ کرتا اور اصلاح نہ ہونے کی صورت میں اسے تبدیل کر دیتا۔ اچھا معمار آج بھی یہی کرتا ہے۔
سیاست کی اصلاح ان لوگوں کا کام ہے جنہوں نے اِسے زندگی بھر کیلئے اپنایا ہے۔ سیاسی عمل میں اگر کوئی خیر ہے تو اس کا کریڈٹ ان کے نام ہے۔ کوئی فساد ہے تو اس کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ وہ صرف اسی صورت میں بری الذمہ ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے مقدور بھر اصلاح کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ان کا یہ عذر قابلِ قبول سمجھا جائے گا۔
یہ سچ ہے کہ سیاست کی منزل اقتدار ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک معمار کی کوشش کا حاصل یہ ہے کہ ایک خوبصورت اور پائیدار عمارت کھڑی ہو جائے۔ اگر سیاستدان ادھورا اقتدار قبول کر لیتا ہے‘ اگر وہ اس کیلئے اخلاقی اقدار کو پامال کرتا ہے‘ اگر وہ اس کیلئے سازش کو روا رکھتا ہے تو پھرکیسے ممکن ہے کہ وہ اقتدار کے حصول کے بعد‘ ریاست یا سیاست کی اصلاح کیلئے کوئی خدمت سر انجام دے سکے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پورا نہیں‘ ادھورا سیاستدان ہے۔میرا یہ احساس روز افزوں ہے کہ پاکستان میں آج سیاستدان موجود نہیں۔ اگر کوئی اکا دکا ہے بھی تو وہ مؤثر نہیں۔ جنہیں ہم سیاستدان کہتے ہیں‘ طاقت اور اقتدار کے حصول کی بے قابو خواہش انہیں سیاست میں لے آئی ہے۔ انہوں نے کبھی سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ سیاست ہوتی کیا ہے؟ اس کے آداب کیا ہیں؟
مثال کے طور پر ایک مقبول سیاستدان اور ان کی پارٹی کے راہ نما بضد ہیں کہ وہ معاصر سیاستدانوں سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ اگر کریں گے تو اقتدار کے مراکز پر قابض غیر سیاسی عناصر سے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ سیاست کو ان سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ سیاست جانتے تو کہتے کہ سیاسی امور پر اگر بات ہو گی تو صرف سیاستدانوں سے۔ یہ سیاستدان طے کریں گے کہ امورِ ریاست کو کیسے چلنا ہے۔ ملک میں انتخابات کب اور کیسے ہونے ہیں۔ غیر سیاسی کرداروں سے سیاسی موضوعات پر کوئی بات نہیں ہو گی۔ ان سے صرف ان امور پر گفتگو ہو گی جو آئین میں انہیں تفویض کیے گئے ہیں۔
ہمارے ملک میں اکثر دو طرح کے سیاستدان پائے جاتے رہے ہیں۔ ایک وہ جو غیر سیاسی مراکزِ اقتدار کی تائید سے ایوانِ حکومت تک پہنچتے اور دوسرے وہ جو اقتدار تک رسائی کیلئے‘ غیر سیاسی مراکز کی حمایت و نصرت کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ روش آج بھی جاری ہے۔ ہم نے چند برسوں کیلئے مختلف منظر بھی دیکھا جب کسی سیاستدان نے غیر سیاسی مراکزِ اقتدار کی مددکے بغیر سیاست کی۔ جیسے 1972ء سے 1979ء تک ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست۔ 1979ء سے 1988ء تک بے نظیر بھٹو صاحبہ کی سیاست۔ 2014ء سے 2022ء تک نواز شریف صاحب کی سیاست۔ اس میں گہرے شعور کے ان لمحات کو بھی شامل کر لیجیے جب میثاقِ جمہوریت پر اتفاق ہوا۔ یہ دستاویز اہلِ سیاست کی بالغ نظری کی گواہ ہے۔ افسوس کہ یہ بلوغت جلد ہی مفاداتی سیاست کی نذر ہو گئی۔
سیاسی عمل کی تطہیر کی طرف پہلا قدم اس بات کا شعور ہے کہ سیاست اہلِ سیاست کا کام ہے۔ جب تک سیاستدان خود اس ایک نکتے پر اتفاق پیدا نہیں کریں گے‘ سیاست کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ سیاستدان‘ سیاستدان کو مضبوط کریں گے تو سیاست اہلِ سیاست کے درمیان رہے گی۔ اگر وہ کسی دوسری قوت کی طرف دیکھیں گے تو پھر ان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
سیاست میں اس سے زیادہ غیر سیاسی رویہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ معاصر سیاستدانوں میں عیب تلاش کیے جائیں‘ ان کو شیطان اور خود کو فرشتہ ثابت کیا جائے۔ اور اس بنیاد پر دعویٰ کیا جائے کہ میں ان سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ جنہیں عمر بھر برا بھلا کہا جاتا ہے‘ وہ اگر ان کی پارٹی میں شامل ہو جائیں تو ان کا ہر عیب ہنر بن جاتا ہے۔ اہلِ سیاست کو دوسروں پر تنقیدکرنی چاہیے‘ مگر دوسروں کو شیطان کے بجائے انسان قرار دیتے ہوئے۔ خود کو بہتر بتانا چاہیے مگر فرشتے کے بجائے انسان سمجھتے ہوئے۔ سیاست میں مثبت مسابقت کو فروغ دینا چاہیے اور اس اصول سے غیر مشروط وابستگی ہونی چاہیے کہ سیاست‘ سیاستدانوں کا کام ہے۔ ان کے رد و قبولیت کا تمام اختیار عوام کے پاس ہے اور ان کی رائے کا ہر صورت میں احترام کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں جمہوریت سے غیر مشروط وابستگی کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔
اہلِ سیاست میں چھانٹی اور بہتر ی کی طرف سفر جمہوری عمل کے تسلسل سے ممکن ہے۔ عدالتی فیصلوں اور بندوق کے زور پر کسی کی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اہلِ سیاست کو کبھی دوسرے سیاستدانوں کے خلاف ایسے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ سیاست کو سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں نے پہنچایا جنہوں نے معاصر سیاستدانوں کے خلاف اقتدار کے غیر سیاسی مراکز سے گٹھ جوڑ کیا۔ افسوس کہ اس روش پر نظر ثانی کی ضرورت آج بھی محسوس نہیں کی جا رہی۔
سیاست کی تطہیر کا آغاز سیاسی سوچ سے ہو گا۔ اہلِ سیاست کو سب سے پہلے سیاسی عمل کو سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک فکری مشقت ہے جو انہیں اٹھانا ہو گی۔ میں اگر 'ہدایت نامہ برائے اہلِ سیاست‘ لکھوں تو اس میں پہلا سبق یہ ہو کہ سیاستدانوں کے خلاف کبھی غیر سیاسی قوتوں کا ساتھ نہ دیا جائے۔ دوسرا سبق یہ ہو کہ مکالمہ کیا جائے اور اہلِ سیاست سے گفتگو کا دروازہ کبھی بند نہ کیا جائے۔ تیسرا سبق یہ ہو کہ غیر سیاسی مراکزِ اقتدار سے کبھی تنہا اور خفیہ معاملہ کیا جائے اور نہ ہی ان کے ساتھ شراکتِ اقتدار کے کسی فارمولے کو قبول کیا جائے۔ ان تین امور پر اہلِ سیاست کو مجتمع ہونا ہو گا۔ سیاسی حکمتِ عملی‘ تطہیرِ فکر کے بعد کا مرحلہ ہے جس میں سرِفہرست ایسی سیاسی جماعت بنانا ہے جو جمہوری اصولوں کے مطابق ہو۔ یہ الگ موضوع ہے جس پرمسلسل بات ہونی چاہیے۔
سیاست کی تطہیر کا آغاز سیاسی فکر کی اصلاح سے ہو گا۔ اہلِ سیاست جب تک ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں رہیں گے اور غیر سیاسی مراکزِ اقتدار سے مذاکرات اور تعاون کی بھیک مانگتے رہیں گے‘ ان کو کبھی پورا اقتدار نہیں مل سکتا۔ پھر انہیں ادھورے اور نمائشی اقتدار ہی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ سلیم احمد نے لکھا ہے کہ عورت کی طرح‘ شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔ سیاست بھی پورا سیاستدان مانگتی ہے۔ اہلِ سیاست پورا اقتدار چاہتے ہیں تو انہیں پورا سیاستدان بننا ہو گا۔