اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی بے یقینی کے معاشی اثرات

آئی ایم ایف کی تازہ سٹاف لیول رپورٹ میں پاکستان کی معیشت بارے جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے وہ سبھی کیلئے چشم کشا ہونے چاہئیں۔ معاملے کے تکنیکی پہلوؤں سے ہٹ کر اس کے سیاسی اور سماجی پہلو بھی خصوصی طور پر قابلِ غور ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پیچیدہ سیاسی منظر نامے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی اور سماجی تناؤ پاکستان میں معاشی استحکام کی کوششوں کیلئے خطرے کا موجب ہے۔ بظاہر اس ایک جملے میں پاکستان کے جملہ معاشی عوارض کا خلاصہ کر دیا گیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ملکی معیشت ملکی سیاست اور سماج کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کوئی استثنیٰ نہیں؛چنانچہ ہم بھی معاشی استحکام کی اسی روش پر چل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سیاسی پیچیدگیاں داخلی سطح پر جس بے یقینی کا سبب بنتی ہیں ‘ ایسے حالات میں سرمایہ کاری کیلئے کشش کا امکان باقی نہیں رہتا۔ سرمایہ کاری حساس فیصلوں پر مبنی ہوتی ہے ‘ اور پُر امن اور پُر اعتماد ماحول کی تمنا رکھتی ہے‘ جہاں سرمایہ کار کو نہ صرف جان و مال کے تحفظ کا احساس ہو بلکہ اسے یہ بھی تسلی ہو کہ اس کا منصوبہ کسی سیاسی اتھل پتھل کی نذر نہیں ہو جائے گا۔ سرمایہ کاری کیلئے جو تسلی بخش ماحول درکار ہے وہ سیاسی طور پر منتشر سماج میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ سامنے کی مثالیں ہیں کہ اس خطے کے بعض ممالک نے تیزی سے ترقی کی ہے جبکہ ان سے کئی گنا زیادہ وسائل اور کاروباری ترقی کے تکنیکی امکانات کے باوجود ہمیں بیرونی سرمایہ کاری میں سے کم حصہ ملا ہے۔ معیشت کیلئے سیاست اس قدر ہمہ گیر عامل ہے کہ پالیسی سے لے کر یوٹیلیٹی تک کوئی شعبہ سیاسی اثر و رسوخ سے خالی نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں سیاسی استحکام ہو گا لازمی ہے کہ وہاں پالیسی میں بھی استحکام اور تسلسل واقع ہو گا ‘ اورسیاسی جماعتیں جب باہمی کشمکش میں مصروف نہیں ہوں گی تو کافی امکان ہے کہ قومی ترقی اور خوشحالی کے اسباب پر توجہ دیں۔ ایسے ممالک ہی حقیقی معنوں میں ترقی کے لوازمات پورے کرتے ہیں۔ داخلی سطح پر استحکام ہو گا توبیرونِ ملک سے سرمایہ کاری آئے گی ‘ سرمائے کی نمو کے امکانات کے پیش نظر قرض دہندگان آئیں گے ‘ لوگوں کو روزگار ملے گا اور انفرادی خوشحالی ہو گی تو سماجی امن و سکون ہو گا‘ لوگ انفرادی ترقی اور معیارِ زندگی کی بہتری پر زیادہ خرچ کرنے کے قابل ہوں گے ۔ اچھا کھائیں پئیں گے‘ تعلیم کے بہتر مواقع سے استفادہ کریں گے اور تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ترقی پذیر سے ترقی یافتہ دنیا کی صف میں جا شامل ہوں گے۔ کتنے روشن امکانات ہیں جو صرف سیاسی استحکام سے پیدا ہو تے ہیں‘ فی الحقیقت جن کا حصول ہماری قومی ترجیحات میں سب سے بلند سطح پر ہونا چاہیے ‘ کیونکہ پاکستان جیسی مواقع سے بھر پور سرزمین کیلئے دو فیصد شرح نمو اور جی ڈی پی کے 80 فیصد سے زائد قرض مقام افسوس ہے ۔ یہ منظر نامہ پاکستان کے امکانات کی حقیقی تصویر پیش نہیں کرتا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان اسباب کا تعین کریں جنہوں نے ہمیں ترقی کے ان مواقع سے دور رکھا۔عقلِ سلیم ان اسباب کی تشخیص کرے تو مسائل کی جڑ سیاسی عدم استحکام میں ملتی ہے۔ سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے پاکستان کا تشخص مجروح ہوا ہے ‘ اور اس رسک کی وجہ سے بیرونی فنانسنگ کے مسائل شدت اختیار کرگئے ہیں۔ پاکستان کو ادائیگی کی صلاحیت اورساکھ کے چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ ڈاؤن سائیڈ رسک غیر معمولی طور پر بڑھ چکا ہے۔ یہ حالات بیرونی سرمایہ کاری کیلئے سدِ راہ ہیں۔آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے ‘ جس کی نشاندہی آئی ایم ایف کی اس سٹاف لیول رپورٹ میں بھی ہے‘ اس سے پہلے بھی کئی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک اس جانب سے خبردار کر چکے ہیں۔ مسائل کا حل ہمارے سیاسی رہنماؤں کے پاس ہے۔ قومی مفاہمت کے جذبے کے بغیر سیاسی اور معاشی استحکام ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں