اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی ہیئت میں تبدیلی ناگزیر

وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی آئی ٹی کمپنیوں کے درمیان شراکت داری پر سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت زراعت‘ معدنیات‘ نوجوانوں کو بااختیار بنانے‘ برآمدات‘، صنعت اور دیگر شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے کیونکہ اقوامِ عالم قرض یا امداد سے نہیں بلکہ دن رات محنت اور لگن سے ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ہماری قومی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ہر حکومت بلند بانگ دعوے اور خوش نما اعلانات کرتی ہے مگر بہت ہی کم اعلانات عملی قالب میں ڈھالے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر گزشتہ پون صدی میں ان وسائل سے نہ تو عوام کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ پایا ہے اور نہ ہی ریاست ان کو بروئے کار لا سکی ہے۔ اگر زراعت کی بات کی جائے تو آج پاکستانی کسان گندم کی بمپر فصل کے باوجود بدحالی کا شکار ہے‘ کیونکہ حکومت امدادی قیمت کے اعلان کے باوجود ملکی کسانوں سے فصل خریدنے سے گریزاں ہے اور کسان اپنی فصل کو اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہیں۔ آج کا کسان بددلی کا شکار ہے اور زرعی شعبے کا مستقبل غیر واضح ہے۔اگر معدنیات کی بات کی جائے تو ایک نسل یہ سنتے سنتے بوڑھی ہو چلی ہے کہ ملک میں سونے‘ تانبے اور قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر ہیں۔ یقینا معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ان وسائل کو ملک کی معاشی مشکلات کے حل کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکا۔ معدنیات کے حوالے سے ہماری حکومتوں کی سنجیدگی کا عالم یہ رہا کہ ملک کی پہلی منرل سمٹ کا انعقاد گزشتہ سال اگست میں ہوا‘ جس میں معدنی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متعلقہ شعبوں میں ملازمتوں کی تعداد تین لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ کرنے اور معدنی برآمدات کو 1.17 ارب ڈالر سے بڑھا کر پانچ ارب ڈالر کرنے کا عزم کیا گیا مگر تاحال اس ضمن میں کوئی قابلِ ذکر پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ اگر افرادی قوت پر نظر ڈالی جائے تو نوجوان ملکی آبادی کا سب سے بڑا طبقہ ہیں۔ مجموعی قومی آبادی میں ان کا حصہ دو تہائی کے لگ بھگ ہے‘ مگر آبادی کا یہ باصلاحیت طبقہ اپنے جائز حقوق اور حکومتی توجہ سے یکسر محروم ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ڈگری ہولڈر نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 31 فیصد ہے۔ جب صورتحال اس نوعیت کی ہو تو نوجوان نسل کے ذہنی اور سماجی دباؤ کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کا عبوری جائزہ لیا جائے تو 2013-14ء کے وفاقی بجٹ کا حجم3591 ارب روپے تھا‘ ٹیکس ریونیو کا ہدف 2598 ارب روپے جبکہ مالیاتی خسارہ لگ بھگ 1600 ارب روپے تھا۔ 2023-24ء کے وفاقی بجٹ کا حجم 14480 روپے تھا جبکہ ٹیکس ریونیو کا ہدف 9415 ارب روپے اور خسارہ 7570 ارب روپے تھا۔ مختصراً یہ کہ ایک دہائی میں ٹیکس آمدن میں تین گنا اضافہ ہونے کے باوجود بجٹ کا خسارہ اور قرضوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 80 فیصد سے بھی متجاوز ہو جائے گی۔ ایسا ملک‘ جو مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 7 سے 8 فیصد تک نمو حاصل کرنے کی استعداد رکھتا ہے‘ اگر وہ ایک یا دو فیصد نمو کی شرح سے آگے بڑھ رہا ہے تو یہ صورتحال الارمنگ ہونی چاہیے۔ درحقیقت یہ معاشی منظر نامہ ہمیںایک معاشی میگنا کارٹا کی دعوت دے رہا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے‘ درآمدات و برآمدات میں واضح تفاوت اور قرضوں پر کُلی انحصار کی وجہ سے پاکستان کا معاشی ماڈل ہیئت میں تبدیلی کا متقاضی ہے۔ جب تک ہماری قومی سیاسی قیادت اور دیگر سٹیک ہولڈر اس جانب متوجہ نہیں ہوں گے‘ معیشت پر دباؤ برقرار رہے گا اور دیوالیہ پن کے خطرے کی تلوار سر پر لٹکتی رہے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں