اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی ایم ایف سے پیش رفت

حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے عالمی مالیاتی ادارے کے مشن نے نئے قرض معاہدے کیلئے پاکستان اور آئی ایم ایف میں پیشرفت کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف نے گزشتہ ہفتے کے آغاز پر 24 ویں ’لمبے اور بڑے‘ بیل آؤٹ پروگرام کیلئے بات چیت کا آغاز کیا تھا‘ اور جمعہ کو بات چیت کے اس دور کی تکمیل پر آئی ایم ایف کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی حکومت منصفانہ ٹیکس کے ذریعے اور انسانی سرمائے کی ترقی‘سماجی تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بہتر صلاحیت کے ساتھ قومی سرمائے میں اضافہ چاہتی ہے۔ پاکستانی حکام کے اصلاحاتی منصوبے کا مقصد معاشی استحکام سے مضبوط‘ ہمہ گیر اور پائیدار نمو ہے۔ اس سلسلے میں مشن اور حکام آنے والے دنوں میں پالیسی امور پر بات چیت جاری رکھیں گے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے بعد پاکستان اور آئی ایم یف میں نئے معاہدہ طے پانے کے امکانات ہیں۔اس ممکنہ معاہدے‘ جو آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا چو بیسواں بڑا قرض معاہدہ ہو گا‘کے معاشی اثرات کو ماضی سے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ آئی ایم ایف کی تجاویز حکومتی محصولات کو بڑھانے اور اخراجات کو کم کرنے پر مرکوز ہوتی ہیں اور اس کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ اور عوامی سہولتوں میں کٹوتی تجویز کی جاتی ہے۔ جہاں تک محصولات میں اضافے کی بات ہے تو حکومتی آمدنی کا بنیادی انحصار توانائی‘ انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس پر ہے‘ دیگر شعبوں میں ٹیکسوں کا نظام غیر منظم اور اصلاح طلب ہے۔ اسی طرح بچت کے معاملے میں بھی عوامی سہولتوں کی مدات ہی پہلا ہدف بنتی ہیں جبکہ سرکاری شعبہ‘ جہاں بچت کی اصل گنجائش پائی جاتی ہے‘ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ حکومتی آمدنی بڑھانے کے یہ حربے غربت میں اضافے کا سبب بن رہے اور معیشت کی نمو میں سست روی کے بڑے ذمہ دار ہیں۔ مہنگی توانائی صنعتی نمو کیلئے ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے کیونکہ پیداواری لاگت میں کافی اضافہ ہونے سے پاکستانی مصنوعات کی مسابقتی قوت پر بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ دوسری جانب گھریلو صارفین کیلئے توانائی کے اخراجات پورے کرنا بس سے باہر ہو رہا ہے۔ لوگ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ بجلی‘ گیس اور پٹرول پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں‘ جس کے نتیجے میں ان کے کنبوں کی پرورش اوردیگر ضروری اخراجات کیلئے بہت کم بچتا ہے۔ لوگوں کے پاس یوٹیلیٹیز کے بلوں سے کچھ نہیں بچے گا تو وہ نئی اشیا خریدنے اور معیارِ زندگی کی بہتری پر بھی زیادہ خرچ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس طرح حکومتی محصولات کا حجم بڑھانے کیلئے توانائی کے شعبے پر غیر منصفانہ شرح ٹیکس نے مہنگائی کا ایسا چکر چلایا ہے جس کے سائے میں معیشت کا پروان چڑھنا ممکن نہیں۔ حکومتی اخراجات میں میانہ روی اور سرکاری شعبے کے وہ ادارے جو مسلسل خسارے کا سبب بن رہے ہیں‘ کے حوالے سے فیصلہ سازی میں کوئی پیشرفت نظر نہیں آرہی۔ ایک طرف حکومت ان لوگوں سے بھی جنرل سیلز ٹیکس‘ ود ہولڈنگ ٹیکس اور انکم ٹیکس وصول کر رہی ہے جو تکنیکی طور پر خطِ غربت سے نیچے ہیں یا بعض صورتوں میں حکومت کی مالی اعانت کے حقدار ٹھہرتے ہیں‘ مگر دوسری جانب سرکاری شعبے میں اللے تللے جوں کے توں ہیں۔ یہ بُعدِ طرفین حیران کن اور معاشی اعتبار سے تباہ کن ہے‘ کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے مسلسل سکڑتی معیشت یہ بوجھ سہارنے سے اب معذور ہوچکی ہے‘ لیکن بوجھ ہے کہ کم ہونے کو نہیں آرہا۔ بڑھتے ہوئے قرض اور ان پر واجب الادا سود کا بوجھ بھی اس میں شامل کر لینا چاہیے جس نے معیشت کی گردن دبوچ رکھی ہے۔ اس تناظر میں آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ معاشی طور پر کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ اس سلسلہ وار کہانی کی چوبیسیویں قسط ہے جس کے ماضی سے اس کے حال اور مستقبل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں