اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان سے درپیش خطرات

وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی نے کہا ہے کہ بشام میں چینی انجینئرز کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے میں کالعدم ٹی ٹی پی ملوث تھی اور اس کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی‘ لہٰذا افغان عبوری حکومت یا تو اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف خود کارروائی کرے یا انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا مطالبہ جائز اور مروجہ عالمی دستور کے عین مطابق ہے۔ کسی ملک کی سر زمین کا کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال ہونا ناقابلِ برداشت عمل ہے‘ جس کی صرف مذمت کافی نہیں‘عملی اقدامات بھی ضروری ہو تے ہیں۔ بشام واقعے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں تشو یشناک ہیں۔ اگرچہ یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں افغان سر زمین کا تعلق پاکستان میں دہشتگردی کے ساتھ ملا ہو۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے‘ قریب تین برس کے اس دورانیے میں یہ سلسلہ مسلسل بڑھتا چلا گیا۔ اس کے باوجود کہ طالبان عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان کو یقین دلایا گیا کہ افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا ‘ دہشت گردی کے واقعات جاری رہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں دہشتگردی کے ہر واقعے کے ڈانڈے افغانستان سے ملے ہیں۔ان واقعات کے مکمل شواہد افغانستان کو فراہم کیے جانے کے باوجود افغانستان میں ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آنا قابلِ افسوس ہے۔ پاکستان نے افغانستان کیلئے جو قربانیاں دی ہیں افغانستان کا دوسرا کوئی ہمسایہ نہیں دے سکا۔ یہ سب اس لیے تھا کہ افغان قوم کو اہلِ پاکستان نے اپنا بھائی سمجھا اور تاریخی و ثقافتی رشتے کے احترام میں اُس سے بڑھ کر کیا ہے جو ایک ہمسائے کی حیثیت سے پاکستا ن کیلئے کرنا ضروری تھا ۔یہ تاریخی رشتہ قائم رکھنے کی خواہش اور آمادگی پاکستان میں اب بھی ہے مگر یہ قومی سلامتی کی قیمت پر نہیں ہو گا۔ افغانوں کو بھی اس امر کا ثبوت دینا چاہیے کہ وہ پاکستان کیلئے مخلص ہیں‘ او ر یہ صرف زبانی طور پر نہیں عملی طور پر ہونا چاہیے۔ افغان طالبان کو شاید یہ حقیقت وقت ہی باور کرا ئے کہ جو اُن کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں وہ اُن کے مخلص نہیں کیونکہ اس عمل کا پہلا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ افغانستان بدستور علاقائی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے عناصر کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانوں کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی سر زمین کو شدت پسندی سے پاک کرکے علاقائی ترقی کا حصہ بنتے۔ اس کام میں ان کی مدد کیلئے پاکستان بھی ہر دم تیار تھا اور چین بھی۔ سی پیک کے ساتھ منسلک ہو نے سے چند ہی برس میں افغان معیشت کی کایا کلپ ہو سکتی تھی ‘ اس کے علاوہ بھی کئی معاشی منصوبے قابلِ عمل تھے ‘ مگر افغانستان اس دوران جس تیزی سے ماضی کی طرف لوٹا ہے اور علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کیلئے اُس نے اپنی سر زمین کو کھولا ہے اس تاریخی ناکامی کی ذمہ داری کسی پرعائد نہیں کی جاسکتی سوائے افغانستا ن کی موجودہ حکومت کے‘ جس نے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا اور خطے کی سلامتی کیلئے سنجیدہ خطرات کو بڑھاوا دیا ہے۔پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں میں افغان سر زمین کا استعمال کیا جانا افغان طالبان کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے تھا ‘ بشرطیکہ وہ چین کی ہمدردی اور خلوص اور پاکستان کی ہمسائیگی اور باہمی تعلق کو کچھ اہمیت دیتے۔ پاکستان کی جانب سے اس واقعے کے مکمل شواہد فراہم کیے جانے کے باوجود اگر طالبان حکومت ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی تو یہ علاقائی سلامتی کیلئے خوفناک ہے۔ یہ رویہ اس اندیشے کا عکاس ہے کہ افغان سرزمین آنے والے وقت میں ایسے مزید واقعات کیلئے استعمال ہو سکتی ہے‘ جبکہ افغان عبوری حکومت علاقائی و عالمی دہشت گردوں کو کھلا چھوڑ کر علاقائی و عالمی خطرات کو ہوا دے رہی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں