اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئندہ مالی سال کے اہداف

وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل اکنامک کمیٹی نے 1500 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ اور تیرہویں پنج سالہ منصوبے کی منظوری دے دی ہے جبکہ مالی سال 2024-25ء کے لیے معیشت کی شرح نمو 3.6‘ صنعتی شعبہ کی نمو کا ہدف 4.4 فیصداور برآمدات کا ہدف 40.5 ارب ڈالر رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔ رواں ماہ کے شروع میں پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی نے مالی سال 2025ء کے لیے یہی اہداف تجویز کئے تھے۔ تاہم ان اہداف کا رواں مالی سال کی معاشی کارکردگی کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو غیر معمولی فرق سامنے آتا ہے۔مثال کے طور پر صنعتی شعبہ‘ جس کی نمو جولائی 2022ء سے منفی میں ہے‘ رواں مالی سال کے دوران بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے اور مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بائیس میں سے بارہ صنعتی شعبوں میں منفی نمو کا رجحان رہا۔ بلند ترین شرح سود‘ بہت مہنگی توانائی اور خام مال کے درآمدی مسائل صنعتی شعبے کی نمو میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں؛ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ ایک سال کے دوران کیا چمتکار ہو گا کہ ہماری صنعتیں منفی سے نکل کر قریب ساڑھے چار فیصد کی نمو حاصل کر لیں گی۔ یہ ناممکن نہیں‘ مگر اسے ممکن بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہیں کیا ہم وہ مہیا کر پائیں گے؟ شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کی معمولی کمی کے ساتھ تو یہ معرکہ سر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔جنوبی ایشیا کے خطے میں ملک عزیز شرح سود میں بدستور بلند ترین سطح پر ہے۔ اسی طرح توانائی کے نرخ ہیں جو ہمارے ہاں تیزی سے بڑھائے جا رہے ہیں اور حکومت دولت پیدا کرنے والے شعبوں کے لیے بھی کوئی اعانت فراہم کرنے سے ہاتھ کھینچ رہی ہے تو اس کے اثرات صنعتی کارکردگی پر کیونکر نہ ہوں گے؟ صنعتی شعبے کی نمو کے طے کردہ اہداف حاصل کرنے کے لیے یا اس کے قریب پہنچنے کے لیے بھی جو کچھ کیا جانا ضروری ہے‘ وہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح برآمدات کے ہدف کو رواں مالی سال کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران 28 ارب ڈالر کے قریب برآمدات ہوئیں جو گزشتہ مالی سال کے اس دورانیے کی نسبت قریب ساڑھے دس فیصد زیادہ ہیں۔ اب ایک برس میں ایسا کیا ہو گا کہ برآمدات 29‘ 30 ارب ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے چالیس ارب ڈالر تک پہنچ جائیں؟بجلی اور گیس کے اونچے نرخوں اور بلند شرح سود کی وجہ سے ہماری صنعتوں کی مسابقتی قوت وہ نہیں کہ عالمی منڈی میں یہ حیران کن تیزی سے اپنی جگہ بنا سکیں۔ جو برآمدات ہو رہی ہیں ان میں بھی خوراک کا حصہ زیادہ ہے‘ مثال کے طور پر چاول کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پرپابندی کی وجہ سے یہ موقع پیدا ہوا۔ رواں مالی سال کے دوران چاول کی برآمدات 80 فیصد اضافے کے ساتھ تین ارب تیس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں‘ تاہم ٹیکسٹائل جیسے کلیدی برآمدی شعبے کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ حکومت کی جانب سے اگلے ایک سال کے لیے اور پانچ سال کے لیے جو نمو کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان کیلئے ضروری عملی اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ ضروری ہے کہ جن شعبوں میں نمو کے زیادہ امکانات ہیں ان کی جانب خصوصی توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں زراعت کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جو کسی بھی دوسرے شعبے کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے‘ مگر حکومتی سطح پر کئے گئے بعض عجیب و غریب اقدامات اس ابھرتے ہوئے شعبے کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ گندم کی درآمد کے اثرات کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے نہ صرف یہ کہ کاشت کاروں کو مالی نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کے زیلی اثرات ہر اُس شعبے پر ہیں جو دیہی آبادی کی معیشت کے ساتھ کسی طرح سے بھی منسلک ہے۔ دیر پا ترقی اور استحکام کے لیے درست فیصلوں کی اپنی اہمیت ہے۔ صرف اہداف مقرر کردینا کافی نہیں ہوتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں