اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مذاکرات کی پیشکش!

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت خوش آئند ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی پہلی تقریر میں میثاقِ معیشت کی بات کی‘ اپوزیشن کو دوبارہ مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں‘ آئیں بیٹھ کر بات کریں‘ معاملات کو حل کریں۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ بات تب ہو گی جب بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر آئیں گے‘ جب ہمارے قیدی رہا ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے فلور پر حکومت اور اپوزیشن‘ ہر دو اطراف سے جو اظہارِ خیال کیا گیا‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مذاکرات کی اس پیشکش کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ حالیہ کچھ عرصے میں‘ الیکشن سے قبل اور بعد میں بھی‘ متعدد سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی اہمیت اجاگر کی گئی‘ سیاسی جماعتوں نے بھی اس اہمیت کو تسلیم کیا اور مذاکرات کو ملکی مسائل کے حل کی راہ قرار دیا‘ اس کے باوجود فریقین میں مذاکرات کے حوالے سے عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ سیاسی قیادت شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات محض ایوان کے دو دھڑوں میں افہام و تفہیم کی سعی نہیں بلکہ اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کا مستقبل ان مذاکرات سے جڑا ہے۔ اس وقت ملکی معیشت جمود کی کیفیت میں ہے‘ سرمایہ کاری تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہے‘ معاشی نمو ایک قدم آگے‘ دو قدم پیچھے والی صورتحال کا شکار ہے۔ سماجی جائزوں میں سیاسی بے یقینی اور مستقبل کے حوالے سے مایوسی واضح ہے۔ الیکشن سے قبل ایک سروے میں ہر دس میں سے چھ نوجوانوں نے مستقبل کے حوالے سے پُرامیدی کا اظہار کیا تھا مگر الیکشن کے بعد بھی سیاسی جمود اور تنائو برقرار رہنے سے عوامی امیدوں کو سخت ٹھیس پہنچی ہے اور آج معاشرے میں مایوسی اور ناامیدی کا گراف انتہائی سطح پر ہے۔ ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی بیرونِ ملک منتقل ہو جانے کی شرح میں 119 فیصد اضافہ بھی اس کا غماز ہے کہ اب تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کی ترجیحِ اول ملک سے فرار ہے۔ چند سیاسی افراد کی ذاتی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم کا ہوا ہے‘ کروڑوں افراد کا مستقبل چند اَنائوں کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ سیاسی تلخ نوائی اور محاذ آرائی کے ذیلی اثرات کے طور پر سماج میں جو سیاسی تقسیم ہوئی اور اس سے عالمی سطح پر ملکی تشخص پر جو اثر پڑا‘ یقینا یہ سب سیاسی قیادت سے پوشیدہ نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود مذاکرات اور افہام و تفہیم کے بجائے ’میں نہ مانوں‘ کی رٹ چہ معنے دارد؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملکی قیادت کے پاس سیاسی تنائو کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کے سوا اور کیا راستہ ہے؟ اب تک مذاکرات کی ہر آفر کو ’’اتمامِ حجت‘‘ کے طور برتاگیا اور ہر فریق نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ تو مذاکرات پر آمادہ ہے‘ مخالف ہی کی جانب سے دیر ہے۔ جب تک سیاسی قیادت کے بامقصد مذاکرات کو قومی مسائل کے حل کی کلید نہیں سمجھا جائے گا‘ سیاسی اور معاشی سطح پر استحکام نہیں آ سکتا۔ سیاسی قیادت کو اب سطحی و گروہی مفادات سے بلند ہو کر قومی مقاصد کو پیشِ نظر رکھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ منافرت‘ انتشار‘ اشتعال‘ الزام تراشی اور ’مخالف کشی‘ کا جو زہر معاشرے میں سرایت کر گیا ہے‘ اسے سیاسی استحکام اور افہام و تفہیم ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جب عوام اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں کو ایک میز پر بیٹھا ہوا دیکھیں گے تو یقینا سماج میں موجود تلخی بھی ختم ہو گی اور یہ یقین پختہ ہو گا کہ سیاسی قیادت عوامی مشکلات اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے یکجان ہے اور اپنے تئیں بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ہم پہلے ہی خاصی تاخیر کر چکے ہیں‘اب مزید وقت ضائع کیے بغیر مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے اور جو فریق اس میں پہل کرے گا‘ وہی ملک و قوم سے اپنے خلوص اور درمندی کا اظہار کرے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں