مشرق وسطیٰ میں کشیدگی
ایران اور اسرائیل میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے تنازعات میں گھرے مشرقِ وسطیٰ کے امن کیلئے مزید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ اسرائیل ماضی قریب میں بھی علاقائی ممالک کو غزہ جنگ میں دھکیلنے کی کوششیں کر چکا ہے مگر پہلے تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور گزشتہ ہفتے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی اسرائیلی حملوں میں شہادت ایسی اشتعال انگیز حرکات تھیں جن کے سبب ایران کے ردِعمل کی توقع کی جا رہی تھی اور منگل کی شب یہ ردِعمل آ گیا۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی کارروائیوں کا جواب اور مذکورہ رہنمائوں کی شہادت کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی حکام کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ تنازع کو بڑھاوا دینے کے حق میں نہیں لیکن یہ بھی متنبہ کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے مزید اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا تو ردِعمل زیادہ شدید ہو گا اور محض عسکری تنصیبات ہی نہیں اسرائیلی انفراسٹرکچر کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ ادھر اسرائیل ایرانی حملوں کے بعد سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات دے رہا ہے اور اس کی جانب سے ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اہم ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تو یہ کشیدگی مزید شدت اختیار کرجائے گی اور دونوں جانب کے اتحادی بھی شاید اس جنگ میں براہِ راست ملوث ہو جائیں۔ یہ صورتحال دنیا کے امن کیلئے ایک بھیانک خواب ثابت ہو گی۔ دنیا آٹھ عشروں کے بعد بھی عالمی جنگوں کی المناک یادوں سے نہیں نکل پائی‘ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید دور میں‘ جب آتشیں ہتھیاروں کی ہلاکت آفرینی کمال درجے پر پہنچ چکی ہے‘ عالمی سطح کی کسی کشیدگی کا تصور ہی خوفزدہ کر دینے والا ہے؛ لہٰذا ان حالات میں اُن عالمی طاقتوں کو زیادہ محتاط اور متحمل طرزِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر جلتی پر تیل چھڑک رہی ہیں۔ اگر غزہ جنگ کے بعد ہی اسرائیل کا ہاتھ روکا جاتا یا دیگر علاقائی ممالک کی تنصیبات‘ عالمی اداروں کے امدادی کارکنان اور صحافیوں کودانستہ نشانہ بنانے پر اسرائیل کو سخت عالمی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا تو شاید حالات اس حد تک کشیدہ ہی نہ ہوتے مگر عالمی طاقتوں کی بے جا حمایت اور طرفداری نے عالمی امن کو خطرات میں جھونکنے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت مدنظر رہنی چاہیے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی آگ بھڑکی تو دنیا کا کوئی خطہ اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ خطہ مشرق اور مغرب کا سنگم ہے‘ اہم عالمی بحری گزر گاہیں مشرقِ وسطیٰ کے اسی خطے میں واقع ہیں‘ لہٰذا جنگ پھیلنے سے پوری دنیا میں سپلائی چین متاثر ہو گی اور تمام عالم کو مختلف النوع بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ دنیا کو تیل کی سپلائی کا سب سے بڑا منبع ہے اور علاقائی کشیدگی کے نتیجے میں توانائی کی سپلائی پر جو اثرات مرتب ہو ں گے‘ وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کشیدگی کو کم کرانے کی مخلصانہ کوششیں کی جائیں۔ اگرچہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فلسطین میں صہیونی ریاست کے نام پر فساد کا بیج دوسری عالمی جنگ کی فاتح مغربی طاقتوں نے بویا تھا مگر اس کی ناجائزیت ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے اسرائیل کے بانی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے بھی تسلیم کیا کہ یہ حقیقت ہمیں جھٹلانی نہیں چاہیے کہ ہم غاصب ہیں اور وہ (عرب) اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ بہرکیف‘ ماضی کو کریدنے کے بجائے ہمیں آج کے حقائق پر توجہ دینی چاہیے اور یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ اس خطے سمیت پوری دنیا میں پائیدار امن کا نسخہ دو ریاستی حل کے سوا کچھ نہیں۔ خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام‘ جس کا مرکز القدس شریف ہو‘ تنازع فلسطین کا واحد قابلِ عمل اور قابلِ قبول حل ہے۔ اس وقت مختلف معاشی بحرانوں میں گھری پوری دنیا کو امن کی اشد ضرورت ہے‘ جس کیلئے تنازع فلسطین کا منصفانہ حل کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔