احتجاج کی سیاست
احتجاج کی سیاست کا ایک اور منظر گزشتہ روز پاکستانی قوم نے اسلام آباد میں دیکھا۔ یقینا کسی لحاظ سے بھی یہ صورتحال خوشگوار نہ تھی۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد کو اکٹھا کر کے دارالحکومت پر چڑھائی کسی طرح بھی مناسب نہیں۔نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ عمل اُس وقت مزید لا یعنی ہو جاتا ہے جب احتجاجی فریق کے پاس اس کیلئے کوئی معقول دلیل بھی نہ ہو۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر ہر بات کا فیصلہ سڑکوں پر کرنا کوئی اچھی روایت نہیں۔ ان جھگڑوں کو پارلیمان میں سلجھا لیا جائے تو یہ جو تماشا آئے روز سرِ بازار لگتا ہے یہ نہ لگے ۔ احتجاج کے حق سے انکار نہیں ‘ اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا گیا ہے ‘ مگر اس کا کوئی جواز بھی ہونا چاہیے۔ سیاسی مطالبات منوانے کیلئے دباؤ ڈالنا یا عوامی طاقت کا مظاہرہ کر کے مقاصد حاصل کرنا احتجاج کے حق کا ناجائز استعمال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سر گرمیوں میں عوام کے مفاد کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ حالیہ سرگرمیوں ہی کو دیکھ لیں یا اس سے پہلے بھی۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اکثر احتجاج سیاسی ایجنڈوں پر مبنی ہوتے ہیں جن کا حقیقی عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم حکومتی پالیسیوں سے عوام کی رنجش‘ تہہ در تہہ مسائل سے ابھرنے والی مایوسی اوربے یقینی عوام کو اس قسم کے احتجاجوں کے ساتھ جوڑنے کا سبب بنتی ہے ‘ یہ جانتے ہوئے کہ احتجاج کا محرک عوامی مفاد نہیں فقط سیاسی مقاصد ہیں۔ ملک عزیز میں اس قسم کی احتجاجی سیاست کی تاریخ پرانی ہے۔ وقت کے ساتھ نہ ہماری سیاست کے رنگ ڈھنگ بدلے اور نہ احتجاج کے طور طریقے۔ ہمارے ہاں احتجاج کا ایک ہی طریقہ ہر دور میں رائج رہا ہے ‘ جس میں ریاست اور عام آدمی کو پہنچنے والی تکلیف کو احتجاج کی کامیابی کا پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ جس احتجاج میں خلقِ خدا جتنا خجل و خوار ہوئی وہ اتنا ہی مؤثر سمجھا گیا۔ضروری تھا کہ وقت کے ساتھ سیاست میں بھی جدت اور بلوغت آتی اورجمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتیں جمہوری رویے اختیار کرتیں۔ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کی خُو ڈالتیں‘ باہمی احترام کو اہمیت دیتیں‘ نفرتوں اور کینہ توزی سے خود کو پاک کرتیں۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسی قسم کی سیاست کی ضرورت ہے نہ کہ دست و گریبان سیاست کی ۔ پاکستان کے مسائل سیاسی اشتعال ‘ جلاؤ گھیراؤ اور محاذ آرائی کے متحمل نہیں ۔ ملک کے اصل مسائل جن میں معیشت اور سکیورٹی کے مسائل سر فہرست ہیں قومی ہم آہنگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ قومی سیاسی جماعتوں میں ہر ایک کا اپنا حلقہ اثر و مقبولیت ہے۔اس کو مانتے ہوئے سیاسی جماعتیں باہمی اختلاف کے باوجود قومی گلدستے کی رنگا رنگی میں اضافے کا سبب بنیں نہ کہ انتشار کو ہوا دے کر اس گلدستے کو پارہ پارہ کریں۔ پتہ نہیں کیوں ہمارے سیاسی رہنماؤں کی نظریں بدلتی دنیا پر بھی نہیں ‘ یا وہ عالمی تبدیلیوں کے اثرات کو صحیح طرح باور کرنے سے قاصر ہیں۔ آج جب ملکِ عزیز سکیورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہے اورمعاشی مسائل اس پر مستزاد ہیں جبکہ عالمی اور علاقائی صورتحال بھی غیر معمولی طور پر گمبھیر ہے۔ اس بحر کی تہہ سے کیا اچھلتا ہے ‘ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا یہ وقت پاکستان میں سیاسی اختلافات کو بڑھاوا دینے ‘ سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کی راہ اختیار کرنے کا ہے؟ ہمارے رہنماؤں کو اپنے عمل اور عزائم پر غور کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے آج بھی بات چیت ہی کا راستہ کارآمد ہے۔ سیاست کے دونوں بڑے فریق یعنی حکومت اور حزبِ اختلاف ذمہ دار ہیں کہ ملک و قوم کے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قومی اتفاق کی جانب پیش قدمی کریں۔ حکومت پر یہ ذمہ داری بدرجہ اتم عائد ہوتی ہے کہ بیان بازی سے جلتی پر تیل ڈالنے کے بجائے سلگتی سیاست کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے۔