نئے صوبوں کی حمایت
’دنیا نیوز‘ کی ویب سائٹ اور آفیشل سوشل میڈیا پیجز پر کیے گئے سروے میں دو تہائی سے زائد صارفین نے نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ویب سائٹ سروے میں حصہ لینے والے 80 فیصد جبکہ یوٹیوب اور ایکس سروے میں بالترتیب 76فیصد اور 71 فیصد افراد نے نئے صوبوں کو ملکی ترقی اور بہتر حکمرانی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ نئے صوبے وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں اور یہ بھی کہ مرکز سے دور ہونے کے سبب جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ اور خیبر پختونخوا اوربلوچستان کے دور دراز اضلاع میں مسائل شدت اختیار کر چکے ہیں۔ روزگار‘ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں اور عوام میں احساسِ محرومی زیادہ پایا جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ مسائل چند ہفتوں‘ مہینوں میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ عشروں کی محرومیوں اور مرکز سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اگرچہ ملک میں ہر قومی سیاسی جماعت نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کی حمایت کر چکی ہے مگر یہ وعدہ ایک الگ سیکرٹریٹ کے قیام سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ چھوٹے انتظامی یونٹس کو سنبھالنا اور چلانا بڑے صوبوں کو چلانے سے کہیں آسان ہے۔ معاصر دنیا میں دیکھیں تو ترکیہ میں ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی کے لیے 81 اور ایران میں آٹھ کروڑ آبادی کے لیے 31 صوبے ہیں۔ اگر لسانی کے بجائے انتظامی بنیادوں پر صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے تو اس سے کروڑوں عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔