اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی ہنگامے اور معاشی چیلنجز

وزیراعظم شہباز شریف کا گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ کہنا تھا کہ اقتصادی اشاریے مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور پوری دنیا اسی حقیقت کو تسلیم کررہی ہے‘ مہنگائی کی شرح32 فیصد سے کم ہوکر6.9 فیصد پر آگئی ہے‘برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہورہا ہے اور سٹاک مارکیٹ بھی اوپر جا رہی ہے۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ یہ چیزیں ایک مخصوص جماعت کو قابلِ قبول نہیں‘ تاہم ملک میں 2014 ء جیسے حالات پیدا نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کا اشارہ پاکستان تحریک انصاف کے اسلام میں جاری اُس وقت کے احتجاج کی جانب تھا جو چینی صدر کے طے شدہ دورۂ پاکستان میں تاخیر کا موجب بنا۔ اب جبکہ آئندہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر چینی وزیر اعظم کا دورہ بھی طے ہے تو حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ایسی کوئی اَنہونی نہیں ہونی چاہیے جو اس اہم ترین دورے پر اثر انداز ہو۔گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاجی پروگرام سے ایسے خدشات پیدا ہو چکے تھے مگر خیریت گزری اور یہ احتجاج کسی بڑے اندیشے کو جنم دیے بغیر ختم ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد کراچی ایئر پورٹ کے قریب دہشت گردی کا واقعہ جس میں دو چینی انجینئر مارے گئے‘ بھی خاصی تشویش کا سبب تھا۔ چینی کارکن جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں معاون ہیں‘ پاکستان اور چین کے دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول بنانے کیلئے اس خطرے سے نمٹنا بے حد اہم ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں تاہم خطرات کی نوعیت اور شدت کا اندازہ لگائیں تو ان اقدامات کو بڑھانے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ سی پیک جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے‘ کو در پیش رکاوٹوں اور مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو سب سے بڑے اور سنجیدہ نوعیت کے مسائل سکیورٹی حوالے سے ہیں۔ان مسائل کا سیاسی مسائل سے تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ حکومت کو اپنی توجہ اصل مسئلے یعنی سکیورٹی کے مسئلے پر رکھنی چاہیے۔ ملک میں سیاسی ہم آہنگی کی کوششیں اس سلسلے میں بھی مددگار ثابت ہوں گی‘ لہٰذاسیاسی مفاہمت حکومتی ترجیحات میں سرفہرست رہنی چاہیے۔ معاشی استحکام کیلئے حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ ایک‘ ڈیڑھ برس پہلے کے مقابلے میں آج کے حالات خاصے بہتر ہیں‘ اعدادوشمار اس کی تصدیق کرتے ہیں‘ مگر استحکام کا عمل ابھی ادھورا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام اس کوتقویت دے سکتا ہے۔ دوسری صورت میں حکومتی کاوشیں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہو سکتی ہیں۔ حکومت کا اولین ایجنڈا اگر معاشی استحکام ہے تو سیاسی استحکام کی کوششیں اس میں رنگ بھر سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مفاہمت کی کوششوں میں سنجیدگی دکھائی جائے۔ماضی گواہ ہے کہ سکیورٹی خطرات سے نمٹنے میں بھی سیاسی مفاہمت سے مدد ملی۔ سکیورٹی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ جدوجہد آزمودہ ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعت کو بھی ادراک ہوچکا ہو گا کہ آئے روز کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا کوئی ثمر نہیں۔ اس مہم جوئی کا حاصلِ جمع صفر ہے۔  حزبِ اختلاف کی جماعت میں سنجیدہ لوگوں کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت سکیورٹی اور معیشت کا استحکام ایک ایسا مقصد ہے جو حکومت اور حزبِ اختلاف میں تعاون کا امکان پیدا کرسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں دھڑوں کو اس کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ اپنے طے شدہ ترقی کے ایجنڈے پر یکسوئی سے توجہ دینے کیلئے اسے وقت مل سکتا ہے‘ جبکہ حزبِ اختلاف کی جماعت کو اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ پچھلے دو برس کے دوران ہر طرح کے داؤ پیچ آزما لینے کے بعد اب اس کے پاس یہی ایک راستہ بچتا ہے جو اس کی سیاسی بقا کی ضمانت بن سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں