شنگھائی تعاون تنظیم‘ امکانات کا سرچشمہ
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہانِ حکومت کے اجلاس میں شرکت کیلئے رکن ممالک سے وفود پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز چین‘ بھارت اور ایران سمیت کئی ممالک کے وفود پہنچے‘ آج وزیر اعظم چین پاکستان کے اہم دورے پر تشریف لا رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس کئی لحاظ سے پاکستان کیلئے اہم ترین موقع ہے۔ رکن ممالک کے سربراہان کی آمد سے پاکستان کو جو سفارتی فوائد حاصل ہوں گے ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ملکِ عزیز دنیا کے اس حصے کی اہم ترین ریاست ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت ایک کھلا راز ہے۔ ایسی اہمیت کی حامل ریاست کو علاقائی سطح پر متحرک کردار ادا کرنا چاہیے‘ جس کیلئے رابطہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایس سی او سر براہی اجلاس سے اس کا بہترین موقع پیدا ہوگا۔ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کے ساتھ تعلقات میں نمایاں پیشرفت قابلِ ذکر ہے۔خطے کے ممالک کے ساتھ مضبوط تعلق معاشی‘ سیاسی اور دفاعی لحاظ سے بے حد اہم ہے اور بدلتے عالمی حالات اس کی ضرورت میں اضافہ کرتے ہیں؛ چنانچہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اپنے خطے میں تعلقات کو فروغ اور وسعت دی جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اس سلسلے میں اہم پلیٹ فارم ہے جسے یوریشیائی خطے کی سب سے مؤثر علاقائی تنظیم کہنا بے جا نہیں۔ سارک جنوبی ایشیا میں ایک اہم پلیٹ فارم بننے کی پوری اہلیت رکھتی تھی مگر ایسا نہ ہو سکا‘ اور ایسا کیوں نہ ہو سکا اس کا جواب ہمارے مشرقی ہمسائے کا رویہ ہے۔ سارک ’مرحوم‘ کے بعد ایشیائی خطے میں ایس سی او ہی ایک ایسا علاقائی پلیٹ فارم ہے جس سے علاقائی سیاست اور صورتحال میں مثبت تبدیلیوں کی امید ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان معاشی تنہائیوں سے نکلنے کی کامیاب کوششیں کر رہا ہے۔ایسے موقع پر چین‘ روس‘ بھارت‘ ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے اعلیٰ وفود کی آمد سے معاشی استحکام کی کوششوں کو نئی توانائی مل سکتی ہے۔علاقائی تجارت معاشی نمو کا اہم اشاریہ ہے مگر ملکِ عزیز کی علاقائی تجارت کی صورتحال متاثر کن نہیں۔گزشتہ مالی سال کے دوران علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ 49 فیصد اضافے کے ساتھ ساڑھے نو ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔البتہ یہ خوش آئند امر ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں بہتری آئی ہے۔جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ساتھ پاکستانی تجارت کو بڑھانے کی خاصی گنجائش موجود ہے‘ جس کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر روابط‘ دو طر فہ بہتر تعلقات اور عزم کی ضرورت ہے۔ ایس سی او سربراہی اجلاس اس جانب ایک پیشرفت ہے۔ اس اجلاس سے ایک طویل عرصے بعد پاکستان کو علاقائی ممالک کے سربراہان کے کسی بڑے اجلاس کی میزبانی کا موقع ملا ہے۔ چینی وزیر اعظم کا دورہ معاشی اور دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے نمایاں ہے‘ روسی وزیراعظم بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں زرعی اشیا کے بارٹر کا ایک معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان اور روس میں تجارتی اور معاشی روابط بڑھانے کیلئے ابھی خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی نائب صدر بھی پاکستان میں ہوں گے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ بھی۔ اس سے دونوں ملکوں میں سفارتی قطع تعلقی کے ماحول کو بدلنے میں شاید مدد مل سکے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی‘ سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط کرنا اور دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ امید ہے سربراہی اجلاس معاشی امکانات تلاش کرنے کے علاوہ سکیورٹی کے ان خدشات کو اجاگر کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا پاکستان کو جن کا بڑی شدت سے سامنا ہے اور جن میں علاقائی دخل اندازی کی مصدقہ شہادتیں موجود ہیں۔