اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سموگ کا موسم

لاہور سمیت پنجاب کے بیشترعلاقے ان دنوںسموگ کی زد میں ہیں اور آئے روز لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار پاتا ہے۔ اگلے روز شہر کا ایئر کوالٹی انڈکس 400 کے قریب تھا ‘ یعنی انسانی صحت کیلئے قابلِ برداشت حد سے پانچ گنا زیادہ آلودگی۔ سال کے آخری مہینوں میں لاہور کے ایئر کوالٹی انڈیکس کا خرابی کی اس حد تک پہنچ جانا نئی بات نہیں۔ کئی برس ہوئے آلودگی کی شرح اور شدت میں ہر سال اضافہ ہی ہوا ہے ۔اس دوران آنے والی ہر حکومت نے سموگ کی روک تھام کیلئے کہنے کو بڑے انقلابی اقدامات کیے مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں۔ ہماری حکومتیں بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے کو اس آلودگی کی بنیادی وجہ قرار دیتی آئی ہیں مگر کراچی‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد اورپشاور سمیت متعدد شہروں کا آلودہ ترین شہروں کی عالمی فہرست میں شامل ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ سموگ اور فضائی آلودگی کا مسئلہ صرف فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا نہیں ہوا۔ ہمیں یہ مان کر چلنا ہو گا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان‘ جو اِن تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے‘ کو مستقل لائحہ عمل اور فوری نافذ العمل پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے کچھ تانے بانے عالمی سطح کے مسائل سے بھی ملتے ہیں مگر عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کیے گئے بیشتر وعدوں پر عمل نہیں کیا جاتااور ترقی یافتہ ممالک نے کاربن کے اخراج میں جس شرح سے کمی کا وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہو سکا‘ لہٰذا جہاں اس مسئلے کو بار بار عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے وہیں داخلی سطح پر خود احتسابی کی ضرورت بھی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کی بدترین صورتحال کے باوجود حکومت کے بیشتر اقدامات دفاعی حکمتِ عملی پر مبنی رہے ہیں اور کوئی ایسی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جا سکی جس سے فضائی آلودگی اور سموگ کے مستقل تدارک کی امید کی جا سکے۔ آئے روز بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے کو سموگ کا ذمہ دار قرار دینا یہ باور کراتا ہے کہ حکومت ملکی سطح پر آلودگی کے اسباب کو نظر انداز کررہی ہے۔ ماہرین کے مطابق سموگ میں سب سے زیادہ حصہ گاڑیوں کے دھویں کا ہے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ آلودگی پیدا کرنے والے انجنوں پر بلا توقف پابندی عائد کی جائے اور پٹرول ‘ ڈیزل کا معیار عالمی سطح کے مطابق کیا جائے۔ مگر ہمارے ہاں کی صورتحال یہ ہے کہ سال کے آخری دو‘ تین ماہ کے بعد کسی کو گاڑیوں کی پیدا کردہ آلودگی کا خیال نہیں آتا؛ چنانچہ خوفناک آلودگی پیدا کرنے والی ہر طرح کی گاڑیاں پوری آزادی کے ساتھ چلتیں اور ماحول کا بیڑا غرق کرتی ہیں ‘جبکہ حکومت کی جانب سے اس مسئلے پر غور و فکر کی رسمی کارروائی اکتوبر‘ نومبر میں پوری کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ فضائی آلودگی دو ‘ تین ماہ کا نہیں سال بھر کا مسئلہ ہے۔ جب ہم یہ سمجھ لیں گے تو اس کے مطابق پائیدار پالیسیاں بھی سامنے آئیں گی اور ان پر عمل بھی ہو گا۔ اب تو 26ویں آئینی ترمیم کے تحت صاف ماحول شہریوں کا بنیادی آئینی حق مان لیا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ اس حق کو یقینی بنانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں