اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کے اُبھرتے خطرے

خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایف سی چیک پوسٹ پر فتنہ خوارج کے دہشت گردوں کے حملے میں 10 جوانوں کی شہادت ایک قومی المیہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق فتنہ خوارج کے دہشت گردوں نے ڈی آئی خان کے علاقے درازندہ میں رات کی تاریکی میں بھاری ہتھیاروں سے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور خارجی دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایف سی کے 10 جوان شہید اور تین زخمی ہو گئے۔ دوسری جانب ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں بھی پولیس موبائل پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک ایس ایچ او سمیت دو اہلکار شہید اور ایک زخمی ہو گیا۔ یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب ایک روز قبل ہی باجوڑ اور میانوالی کے علاقوں میں کلیئرنس آپریشن کے دوران دو خودکش حملہ آوروں سمیت 19 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ اگرچہ ملک میں قیامِ امن کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے شہدا کی قربانیوں کا قرض نہیں اتارا جا سکتا اور شہدا کی یہ عظیم قربانیاں ہمارے غیر متزلزل عزم کو مزید مضبوط بناتی ہیں مگر اس حملے سے دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے نو ماہ (جنوری تا ستمبر) کے دوران ملک میں فوجی افسران‘ اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت 1534افراد دہشت گردی کے واقعات میں جان گنوا چکے ہیں۔ اگرچہ اگست کے مقابلے میں ستمبر میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر رہی اور دہشت گردی میں سات فیصد جبکہ اموات میں 56 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی مگر رواں ماہ اس میں دوبارہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رواں ماہ اب تک دہشت گردی کے 45 واقعات میں 55 سکیورٹی اہلکاروں اور 46 عام شہریوں سمیت 146 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی میں اس اضافے کو داخلی سیاسی انتشار اور مغربی سرحدی مسائل سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ حالیہ عرصے میں افغانستان کے سبب دہشت گردی کے خطرات اور ان واقعات کی پشت پناہی میں جس قدر اضافہ ہوا ہے‘ اس کو نہ صرف بارہا افغان حکام کے ساتھ بلکہ عالمی سطح پر بھی اٹھایا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود نہ تو کابل کی عبوری حکومت نے اس پر کوئی مثبت ردِعمل دکھایا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر کوئی پیشرفت دیکھنے کو ملی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان سے علاقائی امن کو لاحق خطرات پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی نمو اور پرورش اور ہمسایہ ممالک کو دہشت گردی کی برآمد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتی ہے اور تمام ملکوں کو اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے مل کر اس سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی آنگن میں سنپولیے پالنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ایک عرصے سے شدت پسندی کی زد پر ہے اور ہیلتھ ورکروں اور سیاسی رہنمائوں سمیت تمام طبقات حالیہ عرصے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ اس ضلع کو دہشت گردوں سے پاک کرنے اور دہشت گردی کے ابھرتے خطرات سے نمٹنے کے لیے جہاں انتظامی و سکیورٹی اقدامات کا ازسر نو جائزہ لینا ضروری ہے وہیں دہشت گردوں کی نفسیات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ دہشت گرد سیاسی طور پر منقسم قوم کی خامیوں کو اپنا ہتھیار بنا کر ریاست پر حملہ آور ہو رہے ہیں لہٰذا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کا متحد ہونا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت کو اتحاد واتفاق کی قوت ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں