اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بڑھتے سکیورٹی خطرات

 پاکستانی دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندے ہمارے اہم مہمان ہیں‘ پاکستان چینی باشندوں‘ منصوبوں اور کمپنیوں کو بھرپور تحفظ وسلامتی کی فراہمی کے لیے پُرعزم ہے۔ قبل ازیں 29 اکتوبر کو اسلام آباد میں چین کے 75ویں قومی دن کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے چینی شہریوں کو درپیش خطرات پر بیجنگ کے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور چینی شہریوں اور سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات پر زور دیا تھا۔ مذکورہ تقریب میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی چین کے شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور چینی حکام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان میں چینی شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ اگرچہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری پاک چین دوستی ہر امتحان میں سرخرو ہوئی ہے مگر پاکستان کی چین سے بڑھتی قربت اور دونوں ممالک کے فروغ پذیر معاشی تعلقات کو بہت سی علاقائی اور عالمی قوتیں اپنی اجارہ داری کے خلاف ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہیں اور ان تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اندرونی و بیرونی سطح پر کئی عناصر کو ہمہ وقت سرگرم رکھتی ہیں۔ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے منصوبوں اور چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوششیں انہی سازشوں کا شاخسانہ ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران چینی افراد کے لیے نئے سکیورٹی خطرات پیدا ہوئے ہیں اور چینی شہریوں کے ساتھ ساتھ چین کی شراکت سے چلنے والے منصوبوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ چند روز قبل بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایک چھوٹے زیر تعمیر ڈیم پر دہشت گردوں کے حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس سے قبل چینی وزیراعظم کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت سے چند روز قبل کراچی میں ایک چینی قافلے کو ٹارگٹ کر کے خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں دو چینی شہری جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔ معاشی و اقتصادی سرگرمیوں پر اس طرح کے حملوں کے غیر معمولی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ اثرات صرف کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہتے‘ دیگر سرمایہ کار بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ بڑھتے سکیورٹی خطرات نے پاکستان کے ابھرتے ہوئے مثبت تاثر کو بھی گہنا دیا ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی وقت ضائع کیے بغیر مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حالیہ حملوں کے بعد چینی حکام کو فول پروف سکیورٹی کی نہ صرف یقین دہانی کرائی گئی بلکہ چینی شہریوں اور چین کے زیر انتظام چلنے والے منصوبوں کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے اور اس وقت بھی سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 112 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک جیسا گیم چینجز منصوبہ ہو یا دیگر معاشی اقدامات‘ یہ اسی وقت اپنے ثمرات سے ملکی اقتصادیات کو تقویت دے سکتے ہیں جب مجموعی طور پر ماحول سکیورٹی خطرات سے پاک ہو۔ امسال جون میں ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ اجلاس میں چینی وزیر نے پاکستان میں سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔ بعد ازاں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی میں وزیراعظم شہباز شریف نے فوج کے ساتھ ساتھ صوبوں کو بھی سکیورٹی اور امن و امان میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا ہدایت کی تھی۔ بڑھتے سکیورٹی خدشات ایک کھلی حقیقت ہیں اور یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کیلئے ہر ممکن اقدام کریں۔ اس سلسلے میں مرکز اور صوبوں کو یکجہتی کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور دہشت گردی کے بڑھتے خدشات کا منظم حکمت عملی سے تدارک کرنا چاہیے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں