اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ماحولیاتی تباہی کے آثار

فضائی آلودگی کی شدت کی وجہ سے لاہور میں ہفتہ بھر پرائمری سکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل صوبائی حکومت کی جانب سے شہر کے بعض حصوں میں لاک ڈاؤن بھی لگایا گیا جس میں ماحولیاتی حوالے سے بعض پابندیاں عائد کی گئیں۔ مگر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ فضائی آلودگی کا مسئلہ ان اقدامات سے کہیں بڑا ہے اور قابو میں نہیں آ رہا۔ پچھلے کچھ روز سے لاہور کے بعض حصوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار تک پہنچ گیا جو عالمی ادارۂ صحت کے مقررہ معیارسے 80 گنا زیادہ آلودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس شدت کی آلودگی سے شہریوں کی صحت کا متاثرہوناحیران کن نہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ انسانی صحت کے لیے خطرناک قرار دی گئی سطح سے دسیوں گنا زیادہ آلودہ ہوا میں سانس لینا انسانی صحت پر جو خوفناک اور دائمی اثرات مرتب کرتا ہے انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ مستقل زہریلی گیس کے چیمبر میں رہنے جیسا ہے‘ جس کے اثرات ہزاروں سگریٹوں سے زیادہ مضر ہیں۔ پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ اس مسئلے کی کلید کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ابھی یہی طے نہیں ہو پایا کہ یہ بھارت کی جانب سے آنے والی آلودہ ہوا کی وجہ سے ہے یا ہماری مقامی پیدا کی گئی آلودگی کا نتیجہ ۔ آج تک فصلوں کی باقیات جلانے کو آلودگی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا مگر حکومتی سطح پر سخت انتظامی اقدامات کی وجہ سے اب باقیات جلانے کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں‘ جبکہ ہوا میں پی ایم 2.5 اجزا کی مقدار ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ ضروری ہے کہ فضائی آلودگی کو کسی ایک سبب سے نتھی نہ کیا جائے بلکہ جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ماحولیاتی سفارت کاری کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی افادیت واضح ہے تاہم بھارت سے ماحولیاتی آلودگی کے مسائل اٹھانے سے قبل ضروری ہے کہ مقامی سطح پر اس مسئلے پہ توجہ دی جائے۔ ماحولیاتی سٹڈیز کے مطابق فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ گاڑیوں کے پیدا کردہ دھویں کا ہے۔ صنعتی آلودگی‘ پاور پلانٹ یا دیگر اسباب اس کے بعد آتے ہیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ جو مسئلے کی بنیادہے پہلے اس سے نمٹا جائے۔اور یہ کام مستقل بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ہر سال انہی مہینوں میں جب آلودگی سانس لینا دوبھر کر دیتی ہے تو ہمارے حکام کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اورکار خانوں کی یاد آتی ہے۔ چند ہفتے اس ہنگامے میں گزر جاتے ہیں پھر یہ جوش و جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ مگر آلودگی کا مسئلہ اُسی طرح باقی رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے سال کے چند مہینے اس کی مقدار میں کچھ کمی ہو جائے مگر یہ انسانی صحت کے لیے ہوا کے محفوظ درجے پر پھر بھی پورا نہیں اترتی۔ یعنی ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں ہوا کا معیار ایک ایسا مستقل مسئلہ بن چکا ہے جس کو سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں بڑے شہر وں میں رہنا نا ممکن ہو جائے گا۔ لاہور جو محاورے میں باغوں کا شہر ہے‘ ایک مدت سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آ رہا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے حکام اگر سمجھتے ہیں کہ فضائی آلودگی چند دنوں کا مسئلہ ہے تو یہ مقام استعجاب ہے۔ پٹرول‘ ڈیزل کا معیار‘ گاڑیوں کے انجنوں کی معیاری حالت اوردھویں کے اخراج کی محفوظ سطح کو یقینی بنانا ہماری قومی ذمہ داری ہے جس سے کوتاہی آنے والے برسوں میں شدید نوعیت کے ماحولیاتی المیے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس غفلت کی انسانی صحت کو جو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے آنے والے برسوں میں اس میں کئی گنا اضافہ خارج از امکان نہیں۔ ضروری ہے کہ باہر سے آنے والی ہواؤں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور ماحولیاتی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں مستقل ترجیح بنا یا جائے۔ بصورت دیگر ماحولیاتی تباہی سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں