گردشی قرض میں اضافہ
رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران پاور سیکٹر کے گردشی قرض میں 257 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جون کے آخر میں پاور سیکٹر کا گردشی قرض 2383 ارب روپے تھاجو اَب چار ماہ بعد 2640 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔یہ اضافہ جولائی میں گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے ٹیرف میں 51 فیصد اضافے کے باوجود ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اس قدر اضافے کے بعد اصولی طور پر اس قرض میں کمی آنی چاہیے تھی‘ مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔قرض کا یہ پہاڑ بجلی کے شعبے کے لیے ناقابلِ عبور ہو چکا ہے اور ان بقایا جات سے نمٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔یہ غیر معمولی قرض بجلی کے شعبے میں پائی جانے والی انتظامی اور تکنیکی خامیوں اور غلط فیصلوں کا حاصلِ جمع ہے۔ ملک عزیز میں جس قسم کی شرائط پر نجی بجلی گھروں کے ساتھ معاملات کیے گئے ہیں ان کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ یہی انتظامی اور فیصلہ سازی کی خامیاں گردشی قرض کے انبار کا بنیادی سبب ہیں۔ اس سے جان چھڑانے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ نجی بجلی گھروں کے ساتھ شرائط کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اس میں فریقِ ثانی کے مفاد کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ گردشی قرض کے حجم کا ایک بڑا حصہ کپیسٹی پیمنٹس پر مشتمل ہے ۔ اگر معاہدوں کا از سر نو جائزہ نہیں لیا جاتا اور ان ناجائز ادائیگیوں کی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑائی جاتی‘ گردشی قرض میں اضافے کا رکنا ممکن نظر نہیں آتا۔