شرح سود میں کمی!
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی زری پالیسی میں شرح سود میں اڑھائی فیصد کمی کر کے اسے15 فیصد کر دیا ہے۔ شرح سود میں یہ مسلسل چوتھی بار کمی خوش آئند ہے اور یہ ملک میں افراط زر میں کمی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے نیچے آئی ہے اور یہ رواں مالی سال کے لیے اوسط مہنگائی کی پیشگوئی (11.5 سے 13.5 فیصد) سے نمایاں طور پر کم ہے۔ سٹیٹ بینک نے 10 جون کو چار سال بعد شرح سود میں کمی کی تھی اور اب تک چار بار کمی کر کے بنیادی شرح سود کو 22 فیصدسے کم کر کے 15 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ملکی تناظر میں دیکھیں تو چار ماہ میں سات فیصدکمی بہت بڑی کمی ہے ‘ مگر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت بھی خطے کے تمام ممالک میں شرح سود کے لحاظ سے اوپر ہے۔ بھارت اور نیپال میں شرح سود 6.5 فیصد ہے‘ سری لنکا میں 8.25 فیصد اور بنگلہ دیش میں 10 فیصد۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے‘ اس طرح پاکستان علاقائی ممالک کے قریب آ جائے گا ۔ ملک میں کاروباری حلقوں کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کیونکہ بلند ترین شرح سود نے قرضوں کا حصول نجی طبقے کے لیے مشکل بنا دیا تھا۔گزشتہ مالی سال کے دوران پرائیوایٹ شعبے نے بینکوں سے 123.8ارب روپے لیے جبکہ حکومت نے 7700ارب روپے کے ریکارڈ قرضے حاصل کیے۔ بلند ترین شرح سود نجی شعبے کی جانب سے قرض لینے میں کمی کے رجحان کی بنیادی وجہ ہے مگر اب اس میں کمی اور بتدریج معتدل شرحِ سود کے ساتھ امید ہے کہ نجی شعبے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروبار میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا جس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ نوجوانوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے اور کاروبار کے لیے ان کی حوصلہ افزائی میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی تاہم شرحِ سود میں کمی کے ساتھ امید کی جاسکتی ہے کہ نوجوان کاروباری افراد بھی قسمت آزمائی کے لیے متحرک ہوں گے۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہماری نوجوان نسل قومی ترقی میں عملی طور پر شامل ہو سکے۔ تاہم شرح سود کے علاوہ ان دیگر عوامل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو صنعتی اور کاروباری ترقی کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر بجلی اور ٹیکس ‘ جن کا سستا ہونا صنعتی سرگرمیوں کے لیے خاصا اہم ہے ۔ اگر افراطِ زر کی بات کی جائے تو سالانہ بنیادوں پر اس کی شرح 7.17 فیصد ہے مگر اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو جس سہ طرفہ مہنگائی کا سامنا تھا کہ ایک طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا‘ دوسری طرف قوتِ خرید میں کمی ہو رہی تھی اور تیسری طرف مالیاتی قدر تنزل کا شکار تھی‘ اس میں سے صرف ایک صورت میں کچھ ٹھہراؤ آیا ہے اور وہ ہے اجناس کی قیمتوں میں کمی۔ مہنگا ئی کی دیگر صورتیں اب بھی اسی طرح ہیں اور عام آدمی کی سکت کا امتحان لے رہی ہیں۔ مالی سال 2024ء میں فی کس آمدنی 1680 ڈالر رہی‘ جو مالی سال 2022ء میں 1766 ڈالر تھی۔ مگر چونکہ عوام کی قوتِ خرید کے بجائے حکومتی سطح پر اشیا کی قیمتوں ہی کو مہنگائی ماپنے کا پیمانہ گردانا جاتا ہے لہٰذا مہنگائی کے دو پاٹوں میں پسنے کے باوجود افراطِ زر میں کمی کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کاروباری گروتھ سرمائے کی دستیابی سے مشروط ہے اور شرح سود میں کمی سے صنعتی اور کاروباری نمو ممکن ہو سکے گی مگر مناسب شرح سود صنعتیں لگانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ صنعتوں کو چلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے جس کے نرخوں میں کمی لائے بغیر صنعتی نمود ممکن نہیں۔