نئے امریکی صدر کے چیلنجز اور توقعات
امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ 277 الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے دوسری بار صدر منتخب ہوگئے ہیں‘ ان کی ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں بھی واضح برتری حاصل کر لی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح دنیا بھر کیلئے حیران کن ہے کیونکہ الیکشن سے ایک روز پہلے تک ہونے والے تجزیوں‘ پولز اور سرویز میں ان کی حریف کملا ہیرس کی برتری دکھائی جا رہی تھی‘ مگر ان نتائج سے تمام تجزیے اور تبصرے اور سروے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں فتح اس حقیقت کے باوجود ملی کہ صدارتی انتخاب سے قبل ان پر سنگین جرائم میں فردِ جرم عائد کی گئی اور اس وقت بھی ان کے خلاف کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران دو بار قاتلانہ حملوں کی کوشش کے بعد ریپبلکن صدر کی واپسی بلاشبہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد اپنی وکٹری سپیچ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی سیاسی فتح ہے جو امریکہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی‘ ہم اپنی سرحدیں ٹھیک کریں گے‘ اپنے ملک کو ٹھیک کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے اپنے سابقہ دور میں کوئی جنگ کی نہ اب کروں گا بلکہ جنگ کو روکوں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح اور کملا ہیرس کی شکست اس حقیقت کی غماز ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت کے عوام اپنی حکومت کی پالیسیوں اور اپنے ملک کے عالمی کردار‘ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں جانبدارانہ کردار سے مطمئن نہیں اور اس میں مثبت طور پر تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر چنا ہے جو جنگوںسے اتفاق نہیں کرتا۔ موجودہ حالات میں مگر امریکی صدارت کی مسند پھولوں کی سیج ثابت نہ ہو گی کیونکہ ڈیموکریٹ حکومت جو ورثہ دے کر جا رہی ہے اس میں بہت سے پیچیدہ مسائل ہیں‘ جیسے مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال‘ اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر حملے‘ یوکرین جنگ اورغیر یقینی صورتحال سے دوچار عالمی تجارت۔ اگر داخلی سطح پر دیکھا جائے تو حالیہ انتخابی مہم کے دوران امریکی سماج میں بے چینی‘ عدم اطمینان اور تقسیم کو واضح طور پر محسوس کیا گیا۔ حالات جس جانب بڑھ رہے ہیں اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو کثیر نسلی امریکہ میں سیاسی وسماجی اضطراب کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔امید ہے اس سیاسی تقسیم کا خاتمہ بھی نومنتخب صدر کی اولین ترجیح ہو گی۔ گزشتہ دورِ حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر اقتصادی پابندیوں‘ ایران سے جوہری معاہدے کے خاتمے اور ماحولیاتی تحفظ کے پیرس معاہدے سے باہر نکلنے کے اقدامات سے دنیا کو نئے امتحانات سے دوچار کر دیا تھا‘ اس لیے اب مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی ایشیا بالخصوص چین اور ایران سے متعلق صدر ٹرمپ کیا رویہ اپناتے ہیں‘ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ نئے امریکی صدر کی پالیسیوں کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو ں گے۔ موجودہ ڈیموکریٹ حکومت نے آئی ایم ایف سمیت بہت سے معاملات میں پاکستان کی مدد کی‘ امید ہے کہ نئی ریپبلکن حکومت بھی اس تعاون کو جاری رکھے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ امن کو ترجیح دے گی اور عالمی تنازعات کو ختم کرنے میں مدد کرے گی۔ صدر ٹرمپ کے پچھلے دورِ صدارت میں یہ شکایت عام رہی کہ وہ من مانی سے معاملات آگے بڑھانے کے عادی ہیں مگر اب ان کی سنجیدگی اور بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے تجربات سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ چار سال میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سمیت بہت سے معاملات میں پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے‘یہ صورتحال آنے والے امریکی صدر کیلئے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح امن‘ بقائے باہمی‘ برابری اور عالمی ترقی کیلئے کردار ادا کرتے ہیں۔