ماحولیاتی تبدیلیاں‘ اثرات اور قیمت
اقوام متحدہ کی سالانہ ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے آگے آنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی مدد چاہیے اوراس کیلئے گلوبل کلائمیٹ فنانس فریم ورک کے ازسرنو تعین کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ترقی پذیر ممالک کو درپیش مشکلات کی جانب توجہ دلائی اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک پر جو مالیاتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ پوری طرح ادا کی جانی چاہئیں تا کہ متاثرہ ممالک کے ماحولیاتی اور معاشی نقصان کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ وزیر اعظم کی تقریر میں یہ نکتہ بھی برمحل تھا کہ کلائمیٹ فنانسنگ کے نام پر متاثرہ ممالک کو قرض دینا مسئلے کا حل نہیں نہ ہی اسے ماحولیاتی انصاف پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماحولیاتی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے والے ممالک کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ پاکستان خود اس صورتحال کا سامنا کر چکا ہے۔ 2022 ء کے سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے منصوبوں کی مدد کیلئے جنیوا میں منعقد ہونے والی ڈونر ز کانفرنس میں گیارہ ارب ڈالر کے اعلانات کیے گئے تھے‘ مگر ان میں سے 90 فیصد رقوم قرض پر مبنی تھیں۔ اگرچہ اس قرض میں سے بھی پاکستان کو پونے تین ارب ڈالر کے قریب رقم ہی موصول ہوسکی ہے۔ وزیر اعظم نے باکو میں ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے کی جانب بھی توجہ دلائی جو ترقی پذیر ملکوں کے قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنا عالمی ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ناگزیر ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اپنے پیدا کردہ ماحولیاتی اثرات کیلئے جوابد ہ نہیں ہو ں گے اور اس کا ہرجانہ ادا نہیں کریں گے تو قوی امکان ہے کہ وہ عالمی ماحولیاتی ذمہ داری کا احساس کرنے ہی سے قاصر رہیں‘ بلکہ زیادہ امکان اس کا ہے کہ اپنے پیدا کردہ ماحولیاتی المیے کے نتائج کو بھی اپنے لیے ایک صنعت تصور کرنے لگیں۔ ماحولیاتی فنانسنگ اور ڈیمیج فنڈ کے بجائے ماحولیاتی متاثرین کو اپنے تباہ حال انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کیلئے قرض فراہم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پہلے اپنی سرگرمیوں سے عالمی ماحول کو تباہ کریں پھر اس کے متاثرین کو مدد کے نام پر قرض فراہم کرکے ان ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کی پالیسیوں اور مستقبل کے عزائم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔ یہ صورتحال عالمی ماحولیات کیلئے غیر معمولی خطرہ ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو اپنے اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرانے کیلئے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ کلائمیٹ فنانسنگ کے نام پر ترقی یافتہ ممالک جو رقم ادا کریں گے یہ ان سرگرمیوں کے اثرات کی معمولی سی قیمت ہو گی جو عالمی ماحول پر مرتب ہوئیں۔ اقوام متحدہ کو اس معاملے میں مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ماحولیاتی فنانسنگ کے حوالے سے ماضی کا ریکارڈ ایسا اطمینان بخش نہیں کہ آنے والے وقت کے حوالے سے زیادہ توقعات وابستہ کہ جاسکیں۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے مالیاتی ضروریات اور اس حوالے سے دستیاب وسائل میں خلیج بڑھتی چلی گئی ہے۔ 2009ء میں کوپن ہیگن میں ہونے والی کوپ 15میں100 ارب ڈالر سالانہ کلائمیٹ فنانس کا وعدہ کیا گیا تھا جو اب 160 ارب تک پہنچنے کی اطلاع ہے‘ مگر یہ رقم ماحولیاتی اثرات سے نمٹنے کے اخراجات سے بہت کم ہیں۔ 2030 ء تک اس مقصد کیلئے سالانہ ایک ہزار ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ دس سال میں 160 ارب ڈالر اور ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر میں غیر معمولی ہے ‘ مگر یہ ماحولیاتی کھلواڑ کی قیمت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ذمہ واجب الادا ہے۔