سماجی استحکام کا تقاضا
سانحہ 9مئی 2023ء میں ملوث مزید 60مجرمان کو فوجی عدالت سے 10سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام شواہد کی جانچ پڑتال‘ مجرموں کو قانونی حق کی یقینی فراہمی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے سزائیں سنائی ہیں جبکہ تمام مجرموں کے پاس اپیل کا حق اور دیگر قانونی حقوق‘ جن کی آئین اور قانون میں ضمانت دی گئی ہے‘ برقرار ہیں۔ گزشتہ برس نو اور دس مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں فوجی عدالتوں سے کُل 105افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ رواں برس اپریل میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ نو مئی کے مقدمات میں 20ملزمان کو فوجی عدالتوں نے ایک ایک برس قید بامشقت کی سزا سنائی تھی‘ تاہم انہیں آرمی چیف کی جانب سے معافی دیے جانے کے بعد سزا کا بڑا حصہ مکمل کرنے پر‘ عید الفطر سے قبل رہا کر دیا گیا۔ 13دسمبر کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی تھی اور اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ لہٰذا 21 دسمبر کو پہلے مرحلے میں 25 مجرمان جبکہ باقی 60 کو گزشتہ روز سزائیں سنائی گئیں۔ فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائے جانے کے بعد یورپی یونین اور چند مغربی ممالک کی جانب سے جو اعتراض کیا جا رہا ہے‘ اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ اپنا مؤقف واضح کر چکا ہے کہ پاکستان اپنی تمام بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے مکمل طور پر پُرعزم ہے‘ نو مئی سے متعلق کیسوں کے فیصلے پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق کیے گئے ہیں۔ اس وقت بھی فوجی عدالتوں سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی ہو گا۔ دوسری جانب سزا پانے والے مجرم کورٹ آف اپیل میں نظر ثانی کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اگر نظرثانی کی درخواست بھی مسترد ہو جاتی ہے تو پھر انکے پاس اس فیصلے کو ہائیکورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق ہے۔ لہٰذا اس کو کسی بھی طور یکطرفہ یا غیر منصفانہ ٹرائل نہیں کہا جا سکتا۔ جن بھی مجرموں کو سزا سنائی گئی‘ ان پر عام سیاسی احتجاج نہیں بلکہ دفاعی و عسکری تنصیبات پر حملے کا الزام تھا اور یہ حملہ کسی ایک جگہ نہیں بلکہ مختلف شہروں میں مختلف مقامات پر کیا گیا۔ مثلاً گزشتہ روز جن ساٹھ افراد کو سزائیں سنائی گئیں‘ ان پر لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس‘ بنوں چھاؤنی‘ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر‘ گوجرانوالہ کینٹ میں راہوالی گیٹ‘ تیمر گرہ میں دیر سکاؤٹس کے ہیڈ کوارٹر‘ چکدرہ قلعے‘ جی ایچ کیو‘ ملتان کینٹ‘ میانوالی ایئر بیس‘ آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری راولپنڈی‘ پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان اور گیٹ ایف سی کینٹ پشاور پر حملے اور توڑ پھوڑ کے الزامات تھے۔ یہ اقدامات نہ تو کسی سیاسی احتجاج کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی انہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے نو مئی کیس ایک ٹیسٹ کا بھی درجہ رکھتا ہے کہ سماج میں انتشار پھیلانے والوں سے ریاست کس طرح نمٹتی ہے۔ قومی عسکری‘ سیاسی اور سماجی قیادت کا یہ مشترکہ عزم ہے کہ نو مئی کے واقعات کے تمام منصوبہ سازوں‘ اکسانے والوں اور انتشار میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ عزم مستقبل میں قومی استحکام کیلئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ اگر ایسے سنگین واقعات کے ذمہ داران قانون کی گرفت اور انصاف کے تقاضوں سے بچ جاتے ہیں تو مستقبل میں ایسے واقعات کے اعادے کے اندیشوں کو رد کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ لہٰذا ان خطرات کی بیخ کنی اور معاشرتی و سماجی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ انتشار اور فساد میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔