معاشی ترقی کی بنیاد
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے میکرو اکنامک استحکام حاصل کر لیا ہے جو جی ڈی پی کی ترقی کیلئے اہم بنیاد ہے‘اس بنیاد پر پاکستان کی معیشت 2025ء سے پائیدار ترقی کی جانب منتقل ہونے کیلئے تیار ہے۔افراطِ زر اورشرح سود میں کمی حکومت کے میکرو معاشی دعووں کی تصدیق کرتے ہیں مگر بادی النظر میں مائیکرو اکنامک استحکام کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔ معاشی استحکام کا بنیادی چیلنج عام آدمی کی قوتِ خرید میں اضافہ ہے‘ علاوہ ازیں پیداواری شعبے کی بہتری اور برآمدات میں اضافہ بھی معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے ۔ قوتِ خرید میں اضافہ فرد کی آمدنی میں اضافے سے منسلک ہے جس کا انحصارکاروباری اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافے اور روزگار کے مزید اور بہتر مواقع پر ہے۔ رواں سال کے دوسرے نصف کے دوران حکومتی شماریات کے مطابق افراطِ زر میں نمایاں کمی ہوئی مگر روزگار کے مسائل اور قوتِ خرید کی کمی کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے؛ چنانچہ بازار میں سستی اشیا بھی عام آدمی ‘ جس کی قوتِ خرید کم ہے ‘ کی پہنچ سے اُسی طرح باہر ہیں۔حکومت یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ رواں سال جون سے نومبر تک افراطِ زر کی شرح 12.6 فیصد سے کم ہو کر4.9 فیصد پر آگئی اور اس دوران شرح سود بھی کوئی 60 فیصد تک کم ہوئی ۔ تاہم کاروباری شعبے کے اعتماد کی صورتحال پر ان عوامل کا اثر نظر نہیں آتا‘ جو اب بھی منفی میں ہے۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس کے بزنس کانفیڈنس انڈیکس سروے کے مطابق اکتوبر ‘ نومبر میں کاروباری اعتماد منفی پانچ فیصد تھا جو مارچ ‘ اپریل کے دوران منفی 14 فیصد رہا۔اس دوران خدمات کے شعبے میں دو فیصد کی معمولی بہتری آئی جبکہ تھوک اور پرچون کے شعبوں میں اور نئی سرمایہ کاری کے حوالے سے صورتحال مایوس کن رہی۔ مارچ‘ اپریل میں تھوک ‘ پرچون کے شعبے کا کانفیڈنس انڈیکس منفی 15فیصد تھا جو اکتوبر ‘ نومبر میں منفی 18 فیصد رہا‘ جبکہ نئی سرمایہ کاری کا انڈیکس جو جون میں منفی 12 فیصد تھا‘ نومبر میں منفی 23 فیصد پر پہنچ گیا۔ یہ اشاریے کاروباری اعتماد کی تسلی بخش صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے جبکہ معاشی پہیے کی تیز حرکت اور مائیکرو اکنامک استحکام کیلئے اس میں نمایاں بہتری آنی چاہیے۔ رواںسال جولائی تا نومبرکے دوران گزشتہ سال کے اس عرصے کے مقابلے میں برآمدات میں قریب ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔تاہم سمندر پار کارکنوں کی ترسیلاتِ زر میں اس دوران تقریباً پونے چار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ یعنی تمام تر مراعات اور حکومتی سرپرستی کے باوجود ملک کا برآمدی شعبہ جتنا کماتا ہے سمندر پار پاکستانی اس سے کہیں زیادہ کما کر بھیجتے ہیں اور ان کی ترسیلات میں نمو کا امکان بھی زیادہ ہے۔ برآمدات کے شعبوں کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نمو حاصل کرنے والے شعبوں میں آئی ٹی اور زراعت شامل ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات میں 32 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ زرعی اجناس میں چاول کی برآمدات میں 35.4 فیصد‘ پھلوں اور سبزیوں میں 12 فیصد اور چینی کی برآمدات میں 834 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ نظر نہیں آتا۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران یہ ایک ارب 12 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکی ‘ حالانکہ شرح سود میں نمایاں کمی اور صنعتی شعبے کیلئے دیگر مراعات کو غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے باعثِ کشش ثابت ہونا چاہیے تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے میکرو اکنامک اقدامات کے اثرات بتدریج کاروباری اعتماد میں منتقل ہوں گے اور سرمایہ کاری ‘ صنعتکاری کے شعبوں میں اضافہ نظر آئے گا۔یہ عمل سیاسی استحکام اور ملک میں سکیورٹی کی بہتر صورتحال سے تیز ہو سکتا ہے اس لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی یہ بات قابلِ فہم ہے کہ سب کو ملک کی خاطر اکٹھا ہونا چاہیے‘ آپس کے اختلافات ہوسکتے ہیں مگر چارٹر آف اکانومی سمیت چار پانچ چیزوں پر سب اکٹھے ہو جائیں تو معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔