2024ء معاشی و سیاسی جائزہ
سال 2024ء اپنی تلخ وشیریں یادوں کے ساتھ رخصت ہوا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سال کئی لحاظ سے اہم تھا۔ سیاسی حوالے سے بات کریں تو سال کا آغاز عام انتخابات کی گہما گہمی میں ہوا۔ آٹھ فروری کو انتخابات ہو گئے مگر ملک میں سیاسی اطمینان کی فضا قائم نہ ہو سکی۔ فارم 45اور 47کا جھگڑا جو اُن انتخابات سے شروع ہوا تھا کسی نہ کسی طرح اب تک جاری ہے اور پارلیمان کے اندر اور باہر اس کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے مایوس کن ثابت ہوئی کہ پارلیمانی جماعتیں اپنے سیاسی جھگڑے پارلیمان کے اندر نمٹانے کے بجائے سڑکوں اور ذرائع ابلاغ پر انہیں طول دیتی رہیں۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے کئی شہروں میں دھرنے اور جلسے ہوتے رہے اور اس دوران کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی پارلیمانی ذمہ داری حکومتی اعمال پر کڑی نظر رکھنا اور محاسبہ کرنا ہے مگر حزبِ اختلاف کی جانب سے عوامی مقدمہ زوردار انداز سے نہیں لڑا گیا۔ اس کے بجائے حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کی توجہ ذاتی سیاسی مسائل‘ معاملات اور مفادات پر مرکوز رہی؛ چنانچہ بجٹ اجلاس ہو یا کوئی اہم قانون سازی‘ حزبِ اختلاف کی جانب سے پارلیمان کے ایوانوں میں سیاسی طور پر بھرپور جدوجہد سامنے نہیں آئی۔ رواں سال یہ حقیقت بھی عملاً سامنے آئی ہے کہ سیاست میں ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کا طریقہ کارگر نہیں۔ ایسی کوششوں کا حاصل ملک اور عوام کے لیے سوائے خسارے کے کچھ نہیں۔ سال بھر حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے جلسے‘ جلوس‘ دھرنے اور مظاہرے کیے مگر مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ تاہم سال کے آخر میں یہ خوش گوار تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف نے ایک میز پر بیٹھنا منظور کیا اور مذاکرات کا آغازکیا جو اچھے ماحول میں ہوا۔ دونوں جانب کے سنجیدہ حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی عمل ہی سے ممکن ہے اور اس کا راستہ بات چیت میں ہے نہ کہ دھرنوں اور مظاہروں میں۔ سال کا زیادہ تر حصہ اگرچہ سیاسی بے چینی کی نذر ہوامگر آخر میں ہونے والی سیاسی مفاہمت کی موہوم سی کوشش خوش آئند ہے‘ جس پر کام کیا جائے تو آنے والے سال میں ملک کے سیاسی ماحول میں قابلِ ذکر بہتری کی امید کی جاسکتی ہے اور اس کے اثرات وسیع تر ہوں گے۔
سیاست کی طرح رواں سال معیشت کے لیے بھی چیلنجز بھرا تھا تاہم معاشی شعبے میں سیاست سے زیادہ استحکام کے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔افراطِ زر کی شرح جو مئی 2023ء میں 38 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی‘ نومبر 2024ء تک صرف چار فیصد پر آ گئی‘ جبکہ روپے کی قدر بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان سٹاک ایکسچینج رواں سال تاریخی عروج تک پہنچی اورہنڈرڈ انڈیکس 2024ء کے شروع میں 64 ہزار 661 پوائنٹس سے بڑھ کر دسمبر تک ایک لاکھ 18ہزار پوائنٹس پر پہنچ گیا۔اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں رواں برس 34فیصداضافہ ہوا جس کے نتیجے میں جولائی تا نومبر کے دوران 14.8ارب ڈالر پاکستان آئے۔ ایک برس پہلے کے اسی دورانیے میں یہ رقم 11ارب 10کروڑ ڈالر تھی۔ رواں سال شرح سود میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اپریل کے مہینے میں یہ شرح 22 فیصد تھی جو چھ ماہ میں 13فیصد کی سطح پر آ چکی ہے۔ شرح سود کو صنعتی اور کاروباری آسانی کا اہم سبب سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں شرح سود جنوبی ایشیا کے سبھی اہم ممالک سے زیادہ ہونے کی وجہ سے صنعتی اور کاروباری ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ تھی۔ رواں سال مسلسل پانچ بار شرح سود میں کمی کو معیشت کے دیگر مثبت اشاریوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ معیشت پچھلے چند سال کی کٹھنائیوں سے نکل کر سیدھی راہ پر آ گئی ہے۔ اگرچہ نمو کی شرح ابھی قابلِ رشک نہیں حالانکہ پاکستان نوجوان اکثریتی آبادی والا ملک ہے جہاں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے معیشت کی نمو کی شرح چھ‘ سات فیصد ہونی چاہیے مگر ہمارے ہاں یہ اڑھائی فیصد ہے۔ تاہم معیشت کا بنیادی ڈھانچہ مستحکم ہونے سے شرح نمو میں اضافے کی توقع بڑھ جاتی ہے۔ رواں سال برآمدات کے حوالے سے بھی بہتر رہا ہے۔ اگرچہ یہ اضافہ بہت بڑا نہیں مگر یہ معاشی کامیابی کی جانب پیشرفت کو ضرور ظاہر کرتا ہے۔ خاص طور پر زرعی شعبے کی پیداوار جیسا کہ چاول‘ پھل سبزیاں اور چینی کی برآمدات میں بڑا اضافہ ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زرعی شعبے میں نمو کی کس قدر اہلیت ہے اور اگر اس شعبے پر حکومت سرمایہ کاری کرے تو یہ بے کار نہیں جائے گی۔ ادارۂ شماریات نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق بھی زراعت کی نمو خدمات کے شعبے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ یہ صورتحال حکومت کو آنے والے سال میں ترجیحات طے کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ معیشت کا پچھلے دو‘ ڈھائی برس کے گرداب سے نکل آنا خوش آئند ہے۔ یہ نظر آتا ہے کہ حکومتی اقدامات نتائج دے رہے ہیں۔ اب اس عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اور یہ حکومت کی معاشی ٹیم کی صلاحیتوںاور قوتِ فیصلہ کا امتحان ہے کیونکہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ یا دیگر ایسے اقدامات جو معیشت پر دباؤ بڑھانے کا سبب بنتے ہیں‘ جاری رہے تومعیشت کی پرواز مشکل ہو جائے گی۔ ضروری ہے کہ صنعت‘ خدمات اور کاروبار کیلئے پُر کشش اور باعثِ راحت ماحول فراہم کیا جائے۔ معیشت پر اعتماد بحال کرنا حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تیزی اور افراطِ زر اور شرح سود میں کمی سمیت معیشت کا مثبت تاثر اجاگر کرنے والے تمام مظاہر کے باوجود پاکستان کی معیشت کو بدستور اعتماد کے بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران کا خاتمہ سیاسی نااتفاقی کے خاتمے اور قومی مفاہمت کے قیام سے ممکن ہے کیونکہ اس کے بعد ممکنہ طور پر حکومت دیرپا معاشی پالیسی وضع کرسکتی ہے۔ سیاسی بے اعتمادی کے ماحول میں مضبوط معیشت کا پروان چڑھنا ناممکن سی بات ہے۔ مضبوط معاشی قوتوں اور ترقی یافتہ ممالک کی مثال دوسری ہے مگر ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں معیشت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔