اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مفاہمتی سیاست کی ضرورت

حکومت اور پی ٹی آئی کے دوسرے مذاکراتی دور کا خوشگوار اختتام اور دونوں فریقوں کا مذاکراتی عمل جاری رکھنے کا عزم خوش آئند سیاسی پیش رفت ہے۔ گزشتہ روز دوسری مذاکراتی بیٹھک میں حکومت کی جانب سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار‘ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ‘ سینیٹر عرفان صدیقی‘ پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور راجا پرویز اشرف‘ ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار‘ وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان‘جبکہ اپوزیشن کی جانب سے قائدِ حزب اختلاف عمر ایوب‘ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور‘ پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجا‘ مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجا ناصر عباس‘ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا اور اسد قیصر جبکہ اراکین قومی اسمبلی اعجاز ا لحق اور خالد حسین مگسی مذاکراتی اجلاس میں شریک ہوئے۔ پہلے مذاکراتی دور کی نسبت یہ ایک جامع بیٹھک تھی جس میں تمام بڑی پارلیمانی کمیٹیوں کی نمائندگی موجود تھی اور دونوں اطراف سے خیرسگالی کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق تحریک انصاف نے 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات پر کمیشن بنانے اور بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر اسیروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ آئندہ ہفتے کے اگلے اجلاس میں پی ٹی آئی چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری طور پر پیش کرے گی۔ اجلاس کے بعد سینیٹر عرفان صدیقی کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے ملک میں جمہوری استحکام کی بات کی ہے‘ اپوزیشن کا لہجہ سخت نہیں اور بہت سی چیزوں کو ان کی جانب سے سراہا گیا ہے‘ بات چیت کا خوشگوار ماحول میں ہونا بھی ایک مثبت پیشرفت ہے‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاکراتی عمل درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور آئندہ ایک دو ملاقاتوں میں مزید برف پگھلنے کا امکان ہے۔ یہ امر روزِ اول سے واضح تھا کہ جب حکومت اور اپوزیشن کے اراکین مل کر بیٹھیں گے اور اپنے مسائل و مطالبات ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے‘ توہی آگے کی کوئی راہ نکلے گی اور سیاسی درجہ حرارت بھی نیچے آئے گا۔ اگر دونوں ہی فریق ایک دوسرے سے ناراض ہو کر کونے میں بیٹھ جائیں اور سیاسی حریف سے ملنے سے گریزاں رہیں تو صلح صفائی کیونکر ہو سکتی ہے؟ جہاں تک پی ٹی آئی کے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن بنانے کے مطالبے کی بات ہے تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ نو مئی کے واقعات کو ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزر چکا اور اب اس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ نو مئی سے متعلق کیس اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور بہت سے مجرمان سزا پا چکے جبکہ کچھ سزا کاٹنے کے بعد رہا بھی ہو چکے۔اسی طرح اگر حکومت اسیران کی رہائی پر آمادہ ہو بھی جاتی ہے تو اس کا دائرہ اختیار کہاں تک ہے‘ یہ ایک بڑا سوال ہو گا۔ یقینا یہ نکات پی ٹی آئی کے بھی پیشِ نظر ہوں گے۔بہرکیف تحریری مطالبات سامنے آنے پر ہی یہ واضح ہو سکے گا کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت سے کیا توقعات رکھتی ہے اورحکومت ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں کس حد تک اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ فی الوقت مذاکراتی عمل کو جاری رکھنا اور مثبت انداز سے آگے بڑھانا ہی دونوں فریقوں کی ترجیح ہونی چاہیے‘ کہ حکومت اور اپوزیشن میں پائی جانے والی دوریاں سیاسی اور سماجی‘ ہر دو حوالے سے ملک وقوم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ مذاکراتی عمل جاری رہنے سے امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے مؤقف میں حقیقت پسندانہ لچک پیدا کریں گے اور مذاکراتی ادوار سے اگر کوئی نتیجہ نہ بھی نکلے تب بھی یہ محنت رائیگاں نہ جائے گی اور سیاسی تنائو کم ہو گا۔پاکستان کو اس وقت جس معاشی‘ سماجی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے وہ سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی اور مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں