آبی بحران کی سنگین صورتحال
ماحولیاتی تبدیلیوں اور ملکی آبادی میں اضافے کے ساتھ پانی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے مگر آبی وسائل کی تعمیر اور پانی کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کی جانب بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پانی کے ذخائر کی کمی ملک میں واٹر سکیورٹی کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ معمول کے مطابق بارشیں ہوتی رہیں تو اس جانب عام طور پر توجہ نہیں جاتی مگر بارشوں کے دورانیے میں معمولی کمی سے ملک میں آبی قلت کے خدشات سر اٹھا لیتے ہیں۔ جیسا کہ ان دنوں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو پانی فراہم کرنے والے وسائل خطرے کے نشان تک پہنچ چکے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے یہ حالات ہیں تو ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کا کیا حال ہو گا؟ موسم سرما میں معمول کے مطابق بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زراعت بھی خطرے میں ہے۔ ربیع کی فصلیں پانی مانگ رہی مگر نہ دریاؤں میں اتنا پانی ہے اور نہ ہی زیر زمین کہ فصلوں کی ضرورت پوری کر سکے۔ یہ صورتحال ہمیں آنے والے وقت کی سنگینی سے متنبہ کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ورلڈ بینک سمیت متعدد عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی ہمیں آبی قلت کے خطرات سے بچنے کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ پاکستان کی ترقی اور ماحولیات پر ورلڈ بینک کی ایک جامع رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں غیر زرعی مقاصد کیلئے پانی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2047ء تک درجہ حرارت میں تین ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ پانی کی طلب میں 60 فیصد تک اضافے کا امکان ہے جبکہ درجہ حرارت میں مزید تبدیلی کے ساتھ پانی کے استعمال میں مزید 15 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ماہرین خبردار کر رہے تھے کہ 2025ء میں پاکستان کا شمار آبی قلت والے ممالک میں ہو گا‘ اور آج کے حالات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں پانی کی سطح کے گرنے‘ بارشوں کے معمول میں تبدیلی اور دریاؤں میں پانی کی مقدار میں کمی کی صورت میں آبی قلت کے آثار بہت پہلے سے موجود تھے ۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 2015 ء سے 2022 ء تک خشک سالی سے تقریباً 50 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ ان خطرات کا پیشگی اندازہ لگانے اور بروقت اقدامات میں ناکامی کا نتیجہ یہ ہے کہ آبی ضرورتوں کیلئے ہم کلیتاً قدرتی حالات کے رحم وکرم پر ہیں‘ مگر اس طرح دہری آزمائش میں ہیں۔ ایک آزمائش بارشوں کے نہ ہونے اور خشک سالی کی‘ جس سے ضرورت کا پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں اور انسان‘ سبھی مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ دوسری آزمائش معمول سے زیادہ بارشوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے سیلابوں کی ہے۔ دونوں صورتوں میں آبی ذخائر ہمارا تحفظ کر سکتے ہیں‘ مگر اس جانب توجہ کی کمی مجرمانہ غفلت کی حدتک پہنچ چکی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ آئوٹ لُک 2013ء میں متنبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے پاس واٹر سٹوریج کیپسٹی صرف 30 دن کی سپلائی کے برابر ہے‘ حالانکہ پاکستان جیسے متنوع موسم والے ملک کیلئے ایک ہزار دنوں کی واٹر سٹوریج کیپسٹی تجویز کی جاتی ہے۔واٹر کپیسٹی بڑھانے پر بروقت توجہ دی جاتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے پانی کے استعمال کے طور طریقوں‘ واٹر مینجمنٹ اور آبی ذخائر کی گنجائش کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ زرعی شعبے میں پانی کی کارکردگی بڑھانے کیلئے جدید طریقوں کا استعمال بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ پانی کے حوالے سے کفایت شعاری کا رویہ اپنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کا فی کس استعمال دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اسے تبدیل کرنے کیلئے عوامی آگاہی ضروری ہے‘ اور قانون سازی اور پانی کے ضیاع پر سزاؤں کا نفاذ بھی۔