اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مہنگائی اور کم معاشی سکت

رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے مگر حکومت رمضان میں مہنگائی پر قابو پانے کے دعوؤں پر پورا اُترتی دکھائی نہیں دیتی۔ وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران 11 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ رمضان کے آغاز ہی سے پھلوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا جو ابھی تک نہیں تھم سکا۔ یہ درست ہے کہ رمضان میں پھلوں کی طلب بڑھ جاتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ کچھ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے تاہم ناجائز منافع خوری اس مہنگائی کا بنیادی موجب ہے۔ متعلقہ انتظامی عہدیدار کہنے کی حد تک بڑی امیدیں دلاتے ہیں کہ ناجائز منافع خوری نہیں ہونے دیں گے اور رمضان المبارک میں عوام کو اشیائے خور و نوش مناسب قیمتوں پر ملیں گی مگر عملاً ان کے یہ دعوے زبانی جمع خرچ تک محدود رہتے ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق مہنگائی میں کمی ہوئی ہے مگر اس کے ثمرات عوام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کم ہوتی قوتِ خرید کی وجہ سے عوام کے معاشی تفکرات کم ہونے میں نہیں آتے ۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح سات فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے۔ عوام کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے منافع خوری روکنے کے ساتھ ساتھ عوام کو روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرکے انکی معاشی سکت بہتر بنانا بھی بہت ضروری ہے۔مگر اس راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں ابھی قابلِ ذکر پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ توانائی کی قیمتوں سے لے کر صنعتوں کے خام مال تک ہر شعبے میں ترقیٔ معکوس کی صورتحال ہے۔ ملک میں سکیورٹی کے مسائل صنعتی ترقی کی جانب اٹھتے قدموں کیلئے ایک نئی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔صنعتی ترقی کے حجم کا جائزہ لینے کیلئے لارج سکیل مینو فیکچرنگ کے تازہ اعدادوشمار دیکھ لینا کافی ہے ‘ جن کے مطابق جنوری 2025ء کے دوران بڑے پیمانے کی صنعتوں کی پیداوار میں جنوری 2024ء کے مقابلے میں 1.22فیصد کمی واقع ہوئی۔ تاہم مالی سال 2025ء کے پہلے سات ماہ (جولائی تا جنوری) کے دوران بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں مجموعی طور پر گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں منفی 1.78 فیصد کی برائے نام نمو ظاہر ہوئی ہے۔لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافے کیلئے ملک میں روزگار کے وسائل کی مضبوط بنیاد ہونی چاہیے جو مستحکم صنعتی شعبے کے بغیر ممکن نہیں۔ خدمات کا شعبہ بھی اگرچہ روزگار کی فراہمی میں قابلِ ذکرحصہ ڈالتا ہے مگر اس شعبے کا استحکام بھی صنعتی شعبے کیساتھ کسی نہ کسی طرح جڑا ہے۔چنانچہ عوامی قوتِ خرید کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صنعتی شعبے کی ترقی کی جانب توجہ دی جائے ۔ اس میں بڑے ‘ درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتیں شامل ہیں۔ ہمارے سماج میں گھریلو صنعتوں کا انفرادی آمدنی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رہا ہے مگر پچھلے کچھ عرصہ کے دوران سستی درآمدات کی ڈمپنگ نے ملک میں گھریلو صنعتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اس طرح لاکھوں مزدور بیروزگار ہو کر روزگار کی مارکیٹ میں مزید مندی کا سبب بنے۔ نوجوانوں کو سٹارٹ اَپس کے ذریعے کاروبارمیں قدم رکھنے کی حوصلہ افزائی کی بھی اشد ضرورت ہے۔خاص طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قسمت آزمائی کا موقع ضرور ملنا چاہیے۔ اسی طرح زرعی شعبے کے متعدد ذیلی شعبے ہیں جن میں نمو کی اچھی صلاحیت ہے۔ مختصر یہ کہ صنعتی ترقی کے امکانات تو اب بھی موجود ہیں مگر وہ کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں اور ان سے استفادہ نہیں کیا جارہا ‘ نتیجتاً روزگار کی امیدیں چند بڑی صنعتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتی شعبے کو وسعت دی جائے اور اس کے ہر ذیلی شعبے کو بڑھایا اور پھیلایا جائے۔ اس طرح کم وقت میں روزگار کے مواقع میں اضافہ یقینی بنایا جاسکتا ہے‘ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور افراد کی آمدنی میں اضافے سے انکی قوتِ خرید میں بہتری آ سکتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00