لاگت میں اضافہ
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو ملک میں پن بجلی کی پیدا وار میں اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے مگر ناقص منصوبہ بندی‘ انتظامی غفلت اور مسلسل تاخیر کی وجہ سے اس اہم منصوبے کی لاگت میں بے بہا اضافہ ہو چکا ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے جب مارچ 2014ء میں اس منصوبے کی تعمیر کی منظوری دی تھی ‘ اُس وقت اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 486ارب روپے تھا۔مگر گیارہ برس گزرنے کے بعد اس کی لاگت 1740 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے اوراس منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 2.9روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 8.79 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔ اس بھاری مالی بوجھ کا سبب صرف افراطِ زر یا تعمیراتی لاگت میں اضافہ نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی اور انتظامی نااہلی ہے۔ اس منصوبے کیلئے کوئی مستقل پروجیکٹ ڈائریکٹر اور کوئی ماہر چیف فنانشل آفیسر مقرر نہیں کیا گیا حالانکہ ایکنک کے واضح احکامات موجود ہیں کہ تین ارب سے زائد کے ہر منصوبے کیلئے ایک مستقل ڈائریکٹر تعینات ہونا چاہیے۔ داسو ڈیم نہ صرف ملک کی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اہم ہے بلکہ یہ زرعی تحفظ کیلئے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس قومی اثاثے کی جلد اور شفاف تکمیل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ایک بااختیار‘ تجربہ کار اور مستقل پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا جائے جو منصوبے کی روزمرہ نگرانی کر سکے۔