اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افراطِ زر میں کمی کے ثمرات؟

ملک میں افراطِ زر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔کنزیومر پرائس انڈکس (CPI) کے ذریعے ماپی جانے والی افراطِ زر مارچ میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 0.6فیصد ریکارڈ کی گئی۔ رواں سال فروری میں یہ شرح 1.5 فیصد تھی۔ مگر عوام کے لیے اشیائے ضروریہ کی خریداری بدستور بڑا مسئلہ ہے اور پہلے کی طرح لوگ اب بھی اپنی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول پر خرچ کررہے ہیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اعدادوشمار سے ہٹ کر حقیقی دنیا میں مہنگائی عوام کے لیے بدستور باعثِ تشویش ہے۔ گزشتہ روز وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے یہ بات اپنے انداز میں کہی جب انہوں نے افراطِ زر میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ مہنگائی میں کمی کا اثر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔وزیر خزانہ کا کہنا درست ہے‘ کہ مہنگائی میں کمی کے دعوؤں کے باوجود عوام اس کے اثرات سے محروم رہیں تویہ دعوے عام آدمی کو شبہات میں ڈال دیتے ہیں ۔عام پاکستانی کے لیے مہنگائی میں کمی کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ جو چیز پہلے جس قیمت پر مل رہی تھی اس کی قیمت خرید کم ہو ۔اگر یہ نہیں ہو رہا تو حکومت اور اس کے اداروں کو دیکھنا ہو گا کہ ایسا کیوں نہیں اور عام آدمی مہنگائی میں تاریخی کمی کے باوجود مشکلات کا شکار کیوں ہے ؟ بظاہر یہ قوتِ خرید کا مسئلہ ہے‘ کہ اشیا کی قدر میں کمی کے باوجود یہ اب بھی عام پاکستانی کی قوتِ خرید کے حساب سے مہنگی ہیں اور آبادی کے ایک بڑے حصے کی پہنچ سے باہر ہیں۔افراطِ زر میں کمی کے فوائد کو عوام تک پہنچانے کے لیے قوتِ خرید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ افراطِ زر میں کمی کو مہنگائی میں کمی تصور کرنا بھی مغالطے کا باعث ہے۔ افراطِ زر میں کمی کا مطلب اشیا کی قیمتوں کے بڑھنے کی رفتار میں کمی ہے۔ افراطِ زر میں کمی کو مہنگائی کی سطح میں کمی کے بجائے مہنگائی میں ہونے والے اضافے میں کمی کے طور پر لیا جائے‘ جو کہ اس کا صحیح تصور ہے‘ تو افراطِ زر میں کمی کے باوجود عام آدمی کی معاشی مشکلات سمجھ میں آسکتی ہیں۔ افراطِ زر میں کمی کے ساتھ اشیا کے نرخوں کے بڑھنے کی شرح بے شک کم ہوئی ہے مگر آمدنی کے کم مواقع کی وجہ سے عام آدمی کی جیب پہلے ہی اتنی ہلکی ہے کہ یہ بظاہر سستی اشیا بھی اُس کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ عام پاکستانی کئی برسوں سے آسمان کو چھوتی مہنگائی سے پریشان ہے اور اس کے باوجود کہ حکومت نے مہنگائی میں کمی کے اقدامات کیے ہیں عام آدمی کے لیے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اب بھی تشویشناک حد تک زیادہ ہیں۔ پچھلے چند برس کے دوران مہنگائی میں تو برق رفتاری سے اضافہ ہوا مگر آمدنی میں اضافہ اس حساب سے نہیں ہوا بلکہ توانائی کے بحران‘ کووڈکی وبا ‘ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اس طرح کے دیگر عوامل کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے اورروزگار کے مواقع میں تیزی سے کمی آئی ۔ وزارتِ منصوبہ بندی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 7 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ غیر معمولی تیزی سے بڑھتی بیروزگاری ‘ سکڑتا ہوا صنعتی ڈھانچہ اور آمدنی کے دیگر وسائل میں کمی وہ بنیادی مسائل ہیں جنہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا اور افراطِ زر میں کمی کے دعوؤں میں گم ہو جانا مہنگائی میں کمی پر منتج نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کا بدیہی نتیجہ سماج میں آسودہ اور محروم طبقات کی تقسیم کو اور گہرا کرنے اورغربت اور مایوسی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہو گا؛چنانچہ حکومت کو تواز ن قائم رکھتے ہوئے آمدنی میں اضافے کے اقدامات پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ موجودہ افراطِ زر کی شرح بہترین ہے‘ قوتِ خرید اگر رکاوٹ نہ ہو تو کوئی فرد اس کے ثمرات سے محروم نہ رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00