قیمتوں میں کمی کے ثمرات؟
وفاقی کابینہ نے عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کمی صارفین تک منتقل کرنے کے بجائے اس رقم سے بلوچستان میں شاہراہ اور نہر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا فائدہ صارفین کو نہیں پہنچایا گیا۔ گزشتہ ماہ پٹرول سستا کرنے کے بجائے وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کا اعلان کیا اور بعد ازاں بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ سات روپے سے زائد کمی کی گئی۔ اب منگل کے روز وزیراعظم نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی خوشخبری سنائی مگر یہ خوشی چند ہی گھنٹوں بعد تحلیل ہو گئی جب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی صارفین کو منتقل کرنے کے بجائے اس رقم کو بلوچستان کی ایک شاہراہ کی دو رویہ کرنے اور کچھی کینال فیز ٹو کو مکمل کرنے کیلئے استعمال کرے گی۔بلوچستان سمیت سبھی وفاقی اکائیوں میں ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اس ترقی کا بوجھ براہِ راست عوام پر اس طرح ڈالنا کہ انہیں عالمی منڈی میں سستی بکنے والی کوئی چیز حکومت کی جانب سے مہنگے داموں فروخت کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔ وفاق صوبوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ذمہ دار ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کے رُخ پر چھوڑنے کی پالیسی اس اقدام کی متقاضی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی کمی کا ریلیف ایک طبقے تک محدود رکھنے کے بجائے بلاتفریق عوام تک منتقل کیا جائے۔ جب کبھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت اپنے محدود اختیارات کو جواز بنا کر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتی ہے مگر اب جبکہ عالمی محرکات کے نتیجے میں اس کی قیمتوں میں کمی آئی ہے تو حیل و حجت سے کام لیا جارہا ہے۔ گزشتہ ڈھائی ماہ میں پٹرول کی قیمت میں محض ڈھائی روپے کمی کی گئی جبکہ اس دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں 22 فیصدسے زائد کمی ہو چکی ہے۔ اس وقت حکومت پٹرول پر101 روپے 42 پیسے فی لیٹر لیوی‘ ٹیکس‘ ڈیوٹی اور مارجن کی مد میں وصول کر رہی ہے اور محض پٹرولیم لیوی کی شرح 78 روپے 2 پیسے فی لیٹر ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پٹرول بنیادی طور پر موٹر سائیکلوں‘ چھوٹی گاڑیوں‘ نجی ٹرانسپورٹ اور رکشوں میں استعمال ہوتا ہے اور اسکی قیمت براہِ راست متوسط اور نچلے طبقے کے بجٹ کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح ڈیزل ہیوی ٹرانسپورٹ‘ ٹرکوں‘ بسوں‘ ٹریکٹروں اور ٹیوب ویلز وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے جس کی قیمت سبزیوں اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کی وجہ ہی سے مہنگائی میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ پٹرولیم کی عالمی قیمتوں میں کمی کی صورت میں حکومت کو اس کا موقع ملا ہے تو اب بھی لیت و لعل کیا جارہا۔ عوامی ریلیف کے پیسے کو ایک صوبے میں ایک شاہراہ کی تعمیر پر خرچ کرنا مقام استعجاب ہے۔ علاوہ ازیں پٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی کیلئے ففتھ شیڈول ختم کرنے کے صدارتی آرڈیننس سے لیوی کی زیادہ سے زیادہ حد کا جو خاتمہ کیا گیا ہے‘ یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونیوالی کمی کے ثمرات عوام تک منتقل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بلوچستان میں تعمیر و ترقی ناگزیر سہی مگر یہ کام صوبائی بجٹ سے ہونا چاہیے‘ یا اراکینِ اسمبلی کے ترقیاتی فنڈ اور رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)کی مد میں جو 1100 ارب روپے مختص کیے گئے تھے‘ بلوچستان میں شاہراہ اور نہر کی تعمیر کیلئے اس بجٹ کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ یہ ایسے ہنگامی نوعیت کے منصوبے نہیں ہیں کہ ان کیلئے عوام کا پیٹ کاٹ کر رقم نکالی جائے۔