آبی تقسیم اور قومی یکجہتی
نہروں کے معاملے پر وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ اور سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کے مابین ٹیلی فونک رابطے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اس معاملے پر وفاق اور سندھ افہام و تفہیم سے آگے بڑھیں گے ‘ تاہم زمینی حقائق اس سے مختلف اور تشویش کا باعث ہیں۔سیاسی قیادت کی سطح پر اس معاملے میں جس قسم کی شعلہ بیانی جاری ہے اس کے منفی اثرات خدشات کا موجب ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت مان کر چلنا ہو گا کہ ہمارے دریاؤں میں پانی کی کمی ہے۔یقینا اس کے اسباب ماحولیاتی بھی ہیں ‘ علاقائی بھی اور تکنیکی بھی۔ اس صورتحال میں جب بارشوں کی کمی سے پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے مگر دوسری جانب بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے زیر کاشت رقبے میں اضافے کی ضرورت ہے‘ کوئی صوبہ اپنے پانی کے طے شدہ حصے میں سے کٹوتی کا روادار نہیں ہو سکتا؛چنانچہ نئی نہروں کے مجوزہ منصوبے کی حساسیت سے کسی کو انکار نہیں۔مگر اس معاملے کو سیاست کا ہتھیار بنانے سے اجتناب بھی اتنا ہی اہم ہے کیونکہ اس طرزِ عمل کا براہِ راست اثر قومی یکجہتی‘ ادارہ جاتی ہم آہنگی اور عام شہریوں کے اعتماد پر پڑ تا ہے۔ پاکستان میں پانی کی تقسیم کا نظام آئینی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر طے ہے اور اس میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس ادارے کی تشکیل کا مقصد ہی یہ تھا کہ تمام صوبوں کو ان کے جائز حصے کے مطابق پانی مہیا کیا جائے اور شکایت کی صورت میں بات چیت ہو۔ مزید یہ کہ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی ‘ وسائل کی تقسیم ‘ صوبوں کے جائز حقوق کی نگرانی اورتنازعات کے حل کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کے نام سے آئینی ادارہ بھی موجود ہے ۔ اس آئینی بندوبست کا مقصد گھر کی بات کو گھر ہی میں سلجھانا ہے مگر ہمارے سیاسی رہنما بضد ہیں کہ اس آئینی میکانزم کو نظرانداز کر کے سڑکوں پر دھرنے دینا اور اپنا مؤقف جلسوں کے ذریعے پیش کرنا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ تنازعات کے پھیلاؤ کے سو اکچھ نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ سندھ کی سیاسی قیادت آئینی اورجمہوری طریقے سے اپنا مقدمہ لڑے۔ سندھ کے اس اصولی مؤقف سے کسی کو اختلاف نہیں کہ اس کے حصے کے پانی میں کوئی تخفیف نہیں ہو نی چاہیے ۔ پانی کا معاملہ بہت حساس ہے‘ لہٰذااس کو چھیڑنے سے وفاق کو بھی گریز کرنا چاہیے مگر سندھ کی قیادت کی طرف سے دیگر صوبوں بالخصوص پنجاب پر الزامات نہ صرف بین الصوبائی ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اس سے قوم کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی ایک خطرناک فضا پیدا ہوتی ہے۔ ایسے بیانات سے عوام میں اشتعال بڑھتا ہے‘ خاص طور پر ان علاقوں میں جو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔خدشہ ہے کہ اس معاملے کو دانشمندی اور ادارہ جاتی سطح پر حل نہ کیا گیا تو یہ آبی تنازع سیاسی‘ لسانی اور ثقافتی جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔پانی جیسا قدرتی وسیلہ جو پوری قوم کا مشترکہ اثاثہ ہے اگر اسے بھی سیاست کی نذر کر دیا تو اس کے نتائج مہلک ہو سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی‘ گلیشیئرز کے پگھلنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پانی کا بحران آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیار کرے گا‘ ایسے میں وفاقی اکائیوں کو مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے‘ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ سازی اور جذباتیت کی بجائے تدبر کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔سندھ کی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ اپنی جماعتوں کا مؤقف عوام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں وفاق کے ساتھ تعاون کی راہیں بھی ہموار کریں‘ اسی طرح وفاق کے نمائندوں کو بھی چاہیے کہ سندھ کے خدشات کو سنجیدگی سے سنیں اور ان کا فوری ازالہ کریں۔سب سے اہم یہ کہ ٹیکنیکل یا مینجمنٹ مسائل کو متعلقہ فورمز پر حل کیا جانا چاہیے نہ کہ سیاسی جلسوں میں۔