اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کی روک تھام

خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں چون دہشت گردوں کی ہلاکت اور افغانستان کی جانب سے دراندازی کی ایک بڑی کوشش کی ناکامی قومی دفاعی نقطہ نظر سے ایک قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔ مسلح دہشت گردوں کی ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں پاکستان میں گھسنے کی کوشش ان خطرات کو واضح کرتی ہے جو سر حد پار سے بدستور درپیش ہیں۔ خوش قسمتی سے سکیورٹی فورسز کو اس حملے کی بروقت اطلاع مل گئی جس کے بعد حکمت عملی کے تحت تین اطراف سے گھیر کر دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا۔ ملکی دفاع کے حوالے سے یہ بڑی کارروائی سکیورٹی اداروں کی تیاری اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات خوفناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ان واقعات کے تانے بانے سرحد پار سے ملتے ہیں‘ جہاں کی انتظامی اور تزویراتی کمزوریوں اور کمزور حکومتی عزم کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے وہاں اپنے ٹھکانے مستحکم کر لیے اور سر حد کارروائیوں میں اضافہ کیا۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکام کی توجہ مسلسل اس سکیورٹی خلا اور پیدا ہونے والے خطرات کی جانب مبذول کروائی جاتی رہی مگر پاکستان کی شکایات پر عملی کارروائی کے بجائے کابل کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ ردعمل کی ریت پڑ گئی۔ اس صورتحال نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پچھلے تین برس کے دوران سکیورٹی خطرات کو بڑھاوا دیا۔ ان برسوں میں پاکستان کے مغربی اور شمال مغربی صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ ’’گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025‘‘ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 163 ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس دہشت گرد حملوں میں اموات کی تعداد 45 فیصد اضافے کے ساتھ 1081 رہی۔ اس صورتحال کو دہشت گردی کے واقعات کی تعدادمیں اضافے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے جو 2023ء میں 517 تھے مگر 2024ء میں دوگنا اضافے کے ساتھ 1099 تک جا پہنچے۔ گلو بل ٹیرر ازم انڈیکس کے آغاز کے بعد یہ پہلا سال تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر میں ایک نیا خطرہ وہ ہتھیار اور فوجی سازوسامان تھا جو 2021ء میں افغانستان سے انخلا کے وقت غیر ملکی افواج وہاں چھوڑ گئیں اور یہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ گیا۔ گزشتہ تین‘ چار برس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی اکثر وارداتوں میں ان وسائل کا استعمال ہوا جس سے دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوا۔ جدید ہتھیاروں‘ جدید فوجی سازو سامان اور شدت پسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی عبوری افغان حکومت پاکستان کیلئے سکیورٹی خطرات میں نمایاں اضافے کا سبب بنی‘ جس کے شواہد گزشتہ کم از کم تین برس میں دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں سامنے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے یہ بات بارہا اور ہر فورم پر کہی گئی ہے کہ افغانستان اور پاکستان کا دفاع لازم وملزوم ہے۔ دونوں ملکوں کا جغرافیہ‘ تاریخ اور ثقافت کی بُنت ایسی ہے کہ ایک دوسرے کے حال سے لاتعلق نہیں رہا جا سکتا؛ چنانچہ افغانستان میں پاکستان کیلئے خطرہ بننے والے عناصر کی موجودگی اور حوصلہ افزائی افغان معاشرے کو بھی خطرے میں جھونک رہی ہے۔ پچھلے دنوں نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ اسحق ڈار کے دورۂ کابل کا لب لباب بھی یہی تھا کہ باہمی اعتماد کو فروغ اور تجارتی تعلقات میں اضافہ دونوں جانب کے عوام کے فائدے میں ہے‘ اور اعتماد کا پہلا قدم یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان کی جانب سے ایسے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو سرحد پار سے دراندازی اور دہشت گردی کے سلسلے کی روک تھام یقینی بنائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں