مشترکہ مفادات کونسل کا اتفاق
مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ مسترد کرتے ہوئے باہمی منظوری کے بغیرکوئی نیا نہری منصوبہ شروع نہ کرنے اور تمام صوبوں کے درمیان مفاہمت کے بغیر وفاقی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں مزید پیشرفت نہیں کرنے کی یقین دہانی خوش آئند ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے مل کر زرعی پالیسی اور ملک میں آبی وسائل کے انتظامی ڈھانچے کی ترقی کیلئے طویل مدتی متفقہ روڈمیپ تیار کر رہی ہے۔ تمام صوبوں کے پانی کے حقوق1991ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے میں محفوظ ہیں‘یہ حقوق2018ء کی آبی پالیسی میں فریقین کی رضامندی کیساتھ محفوظ کیے گئے ہیں۔نہروں کے متنازع معاملے پر قریب دو ہفتے سے سندھ بھر میں احتجاج جاری تھا جس سے قومی شاہراہوں پر آمدورفت کا سلسلہ رک گیا اور ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ تک برآمدی سامان کی رسائی اور وہاں سے درآمد شدہ سامان کو منزل تک نقل و حرکت کی سرگرمیاں معطل رہیں۔ یہ سلسلہ مسلسل کئی روز تک برقرار رہا اس لیے ملکی معیشت اور عوامی زندگی کیلئے اس کی اذیت ہر آنے والے دن بڑھتی چلی گئی۔ گزشتہ روز تاجر رہنمائوں نے ایک پریس کانفرنس میں شاہراہوں کی بندش سے ملکی برآمدات کو ہونیوالے نقصان کے حوالے سے بتایا تھا کہ صرف ٹیکسٹائل کے شعبے کا 500 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا برآمدی مال پچھلے گیارہ روز سے پھنسا ہوا ہے۔ تاجر رہنمائوں نے گزشتہ سہ ماہی میں ملکی برآمدات میں آنے والی 12 فیصد کمی کا سبب بھی لاجسٹک چیلنجز کو قرار دیا تھا۔ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ کیساتھ ملانے والی اہم قومی شاہراہوں کی بندش ملک بھر کی صنعتوں‘ خاص طور پر درآمدی خام مال پر انحصار کرنے والی صنعتوں کیلئے بھی شدید نقصان دہ ثابت ہوئی۔گڈز ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق راستوں کی بندش سے 30 ہزار کے قریب ٹرکوں اور آئل ٹینکروں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیش آئی۔ان میں سے اکثر ٹرک درآمدی یا برآمدی مال سے لدے ہوئے ہیں۔ برآمدی صنعتوں کیلئے معاشی لحاظ سے یہ کڑا امتحان تھا کیونکہ برآمد کیلئے بھیجا جانے والا مال راستوں میں پھنس جانے اور بروقت ڈیلیور نہ ہونے سے ان صنعتوں کی ساکھ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ احتجاج کا یہ طو یل سلسلہ ملکی معاشی ترقی کے عزائم سے موافقت نہیں رکھتا۔معاشی ترقی صنعتوں ‘ شاہراہوں اور بندرگاہوں کی سرگرمیوں میں حرکت سے مشروط ہے۔اگریہ سلسلہ طویل مدت کیلئے معطل ہو جائے تو یہ معیشت کیلئے حرکتِ قلب بند ہونے جیسا ہے؛ چنانچہ حکومت کو اس صورتحال کے اثرات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سنجیدگی کیساتھ اس معاملے کو سلجھانے کی طرف برقت قدم بڑھانا چاہیے اور نوبت ہفتوں کی ہڑتال تک نہیں آنی چاہیے ۔ حکومت کو بروقت اقدامات کرنے چاہئیں اور یقینی بنانا چاہیے کہ آمدروفت کے سلسلے اور صنعتی پہیے کی حرکت رکنے نہ پائے۔ بدقسمتی سے ہر سال ہمارے کئی ہفتے اس طرح کے احتجاجوں‘ دھرنوں اور جلوسوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ دنیا جہاں میں کنٹینر مال تجارت کی نقل و حرکت کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور اس طرح معاشی ترقی کا سبب بنتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہر سال متعدد ہفتے کنٹینروں کو شاہراہوں کی بندش کی ڈیوٹی انجام دینا پڑتی ہے۔ یہ سلسلہ انتظامی لحاظ سے ایک ضرورت ہو سکتا ہے مگر معاشی اعتبار سے باعث تشویش ہے ۔ اگر ہم ملکی معیشت کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہیں تو احتجاج‘ دھرنے اور جلوس کے سیاسی ہتھکنڈوں کو ترک کرنا ہو گا۔ احتجاج کو آئینی حق تصور کرنے والوں کو اس کیلئے مہذب‘ قانونی اور بہتر طریقے استعمال کرنے چاہئیں بصورت دیگر اس سلسلے میں اختیار کئے گئے طور طریقے ملکی معیشت سے بھاری قیمت وصول کرتے رہیں گے۔