تازہ اسپیشل فیچر

ٹیپو سلطان: شیر میسور

لاہور: (محمد علی) جنگی حکمت عملی، شجاعت اور بہادری کے لحاظ سے ٹیپو سلطان کا شمار فرانس کے نپولین بونا پارٹ اور سلطان ایوبی کی صف میں ہوتا ہے۔

مشہور سکاٹش شاعر اور تاریخی ناول نویس والٹر سکاٹ(Sir Walter Scott) نے ٹیپو سلطان کی شہادت پر جو ردعمل ظاہر کیا تھا وہ ٹیپو سلطان کے لیے سنہری خراج عقیت کی حیثیت رکھتا ہے کہ ’’اگرچہ نپولین، جس کا نظم ونسق ٹیپو سلطان سے مختلف تھے، مگر میرے خیال میں ان کو کم از کم وہی جرأت مندی، عزم، مستقل مزاجی اور بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے کیا اور اپنی دارالحکومت کی حفاظت کرتے ہوئے جواں مردی سے تلوار ہاتھ میں لیے شہادت قبول کی تھی‘‘۔

ٹیپو سلطان 10 نومبر 1750ء کو دیوانہلی میں پیدا ہوئے، اُن کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر رکھا گیا، انہیں اپنے دادا فتح محمد کے نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا، ٹیپو کی پیدائش کے وقت تک حیدر علی کی قائدانہ صلاحیتوں اور فوجی حربوں کی شہرت بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔

سلطان حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم وتربیت اور فنون حرب پر خاص توجہ دی، ٹیپو سلطان نے محض 15 سال کی عمر میں اپنے والد حیدر علی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ میں حصہ لیا، 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور کا آزادانہ اختیار دے دیا گیا تھا۔

برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کی راہ کے سب سے بڑے کانٹے سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے، 1767ء تا 1799ء اُن کی انگریزوں سے چار جنگیں ہوئیں، ٹیپو نے اپنے باپ سلطان حیدر علی کی نگرانی میں کرنل بیلی، کرنل برتیھ ویٹ سرایر کوٹ اور بریگیڈر جنرل جیمس سٹوارٹ جیسے آزمودہ کار افسروں کو شکست سے دوچار کیا، 1767ء پہلی اینگلو میسور جنگ میں حیدر علی نے انگریزوں کو ذلت آمیز شکست دی اور انہیں صلح پر مجبور کیا۔

یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اگرچہ 1782ء میں دوسری اینگلو میسور جنگ کے دوران حیدر علی سرطان کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد جاں بحق ہوگئے لیکن ٹیپو نے حیدر علی کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور جنگی حکمت عملیوں کے سبب انگریزوں کو بھاری نقصان پہنچایا، 11 مارچ 1784ء کو ٹیپو سلطان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان منگلور کا معاہدہ ہوا، اس پر منگلور میں دستخط ہوئے اور دوسری اینگلو میسور جنگ کا خاتمہ ہوا۔

اس معاہدے نے دور اندیش شیر میسور فتح علی خاں ٹیپو کو موقع دیا کہ دیسی ریاستوں کو اکٹھا کیا جائے اور انگریزوں کو مکمل شکست سے دوچار کرنے کے لئے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیا جائے،اس غرض سے انہوں نے جے پور، جودھپور اور نیپال وغیرہ کو اپنے ایلچی اور خطوط بھیجے، 23 جون 1785ء کو مغل شہنشاہ شاہ عالم کی خدمت میں بھی عریضہ لکھا اور انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

ٹیپو سلطان نے ہندوستان کو غلامی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن غدار وطن اور نامساعد حالات کی وجہ سے اُن کی جدوجہد ان کے مقصد کی حد تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی، انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے اتحاد کے علاوہ ان کی آستین کے سانپ میر صادق، پنڈت پورنیا، میر غلام علی (لنگڑا) بدرالزماں خاں نائطہ، میر معین الدین، میر قمر الدین، میر قاسم علی پٹیل اور میر نورالدین جیسے غداروں کا بھی سامنا تھا، جنہوں نے سلطنتِ خداداد کا استحصال کرنے کا عزم کیا ہوا تھا۔

چوتھی اینگلو میسور جنگ 1799ء کے دوران سلطنت خداداد پر ایسٹ انڈیا کمپنی، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی 50 ہزار کی تعداد میں مشترکہ افواج نے یلغار کی جو ٹیپو کی آخری جنگ ثابت ہوئی، سلطان کے غدار افسروں نے آخری وقت تک انگریزوں کی سرگرمیوں سے ٹیپو کو اندھیرے میں رکھا، سلطان کو برطانوی افواج کی نقل وحرکت کی اطلاع اُس وقت ملی جب وہ سرنگا پٹم پر اپنا شکنجہ کس چکی تھی، تقریباً پانچ ہزار سپاہی جن میں تین ہزار یورویپن سپاہی شامل تھے، یلغار کیلئے متعین کیے گئے تھے۔

4 مئی کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی ان سپاہیوں کو خندق میں اُتار دیا گیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو، حملے کے عین وقت میر صادق اور پورنیا نے شگاف اور جنوبی فصیل کی متعینہ فوج کو تنخواہ کے بہانے سے مسجد اعلیٰ کے پاس بلا کر انگریز فوج کو قلعہ پر چڑھ آنے کی سہولت دی، اس اقدام کا احتجاج کرنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ سید غفار جو سلطان کا انتہائی وفادار تھا بدقسمتی وہ توپ کے ایک گو لے سے شہید ہو چکے تھے، اُن کے شہید ہوتے ہی غداروں نے قلعہ سے سفید رومال ہلا کر انگریز فوج کو یلغار کا اشارہ کیا جو پہلے سے خندق میں موجود تھی۔

اشارہ پاتے ہی فوج نے قلعہ پر دھاوا بول دیا، ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروا دیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دہلی دروازہ کھول دیا اور قلعے میں زبردست جنگ چھڑ گئی، اس حملہ کے دوران ٹیپو ایک جری سپاہی کی طرح پیدل ہی حملہ آور فوج سے لڑتے رہے،اگر چہ ٹیپو کے پاس جنگ سے نکلنے کا راستہ تھا لیکن انہوں نے میدان جنگ سے فرار پر شہادت کو ترجیح دی، بارود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور پڑ گئی۔

اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو اپنی جان بچانے کے لیے نکل جانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو سلطان اس پر کہاں راضی ہونے والے تھے، وہ اپنے مشہور قول ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ پر کاربند تھے، 4 مئی 1799ء کو میسور کا سورما شہادت کے بلند تر درجے پر فائز ہوا۔

بنا کر دند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔