تازہ اسپیشل فیچر

عقیدہ ختم نبوت….قرآن و حدیث کی روشنی میں

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور بطور آخری نبی حضرت محمدﷺ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے کو مسلمان کہتے ہیں، جب بندہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو اس میں وہ اللہ کی وحدانیت اور حضور نبی کریمﷺ کی رسالت پر ایمان لاتا ہے۔

اسی طرح حضوراکرمﷺ کے خاتم الانبیا ہونے پر جو شک کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا ایمان زائل ہو جاتا ہے، عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، قرآن مجید کی 100 آیات مبارکہ اور رحمت دوعالمﷺ کی210 احادیث مبارکہ اس عقیدے کی وضاحت و گواہی دے رہی ہیں کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا گیا ہے، آپﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں، آپﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔

عقیدہ ختم نبوت کے متعلق اللہ نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا،’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) ہیں‘‘ (سورۃ الاحزاب: 40)، بہت سی دیگر آیات بھی موجود ہیں، جن سے اہلِ اسلام ختم نبوت پر استدلال کرتے ہیں، اس آیت کریمہ کی متفقہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخر النبیین ہے اور اسی پر ساری امت کا اجماع ہے اور تمام علما و مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کسی قسم کا کوئی رسول ہوگا۔

اس پر بھی اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل یا کوئی تخصیص نہیں، لہٰذا اس کا منکر یقینا اجماع امّت کا منکر ہے، قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ رسول کریمﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں، آپﷺ کے بعد قیامت تک نہ کوئی رسول پیدا ہوگا اور نہ کوئی نبی پیدا ہوگا۔

رحمت دو عالم حضرت محمدﷺ تمام نبیوں اور رسولوں کے آخر میں تشریف لائے، نبوت و رسالت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہوگیا، گزشتہ انبیا علیہم السلام کی تبلیغ و ہدایت اور نبوت و رسالت ایک علاقے یا ملک تک محدود رہی، انہوں نے کبھی عالمگیر دعوت و پیغامِ حق کا دعویٰ نہیں کیا لیکن آپﷺ کا پیغام عالمگیر تھا اور آپﷺ کی مخاطب پوری دنیا تھی۔

آپﷺ پوری کائنات کیلئے ’بشیر‘ اور ’نذیر‘ بن کر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام مکمل اور محفوظ شکل میں تمام دُنیا کے انسانوں کی ہدایت کیلئے باقی چھوڑا اور کسی نئے نبی یا رسول کے آنے کی ضرورت کو ختم کر دیا، اس لیے قرآنِ حکیم نے آپﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘ کہا۔ عربی زبان میں ’’خاتم‘‘ کا معنی اس مہر کے ہیں جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جا سکے، اس لیے آپﷺ کے آنے سے نبوت و رسالت کا سلسلہ سر بمہر ہوگیا اور آپﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہ آئے گا۔

یہی وہ حقیقت ہے جس کی گواہی خود حضوراکرمﷺ نے یہ کہہ کر دی فرمایا کہ ’’میری اور تمام انبیا علیہ السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمدہ اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکر لگا کر کہنے لگے ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ (کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے) تو میں (اس عمارت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں‘‘ (صحیح مسلم:5959)

حضور نبی کریمﷺ نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح فرمائی کہ اس کے بعد آپﷺ کے آخری نبی ہونے میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ (صحیح بخاری)

ایک اور حدیث مبارکہ ہے ’’اب رسالت ونبوت منقطع ہو چکی ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں (صحیح بخاری)۔

نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 633)

حضرت عائشہ صدیقہؓ نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کرتی ہیں ’’میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد میں آخری مسجد ہے‘‘۔

حضرت عقبہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں‘‘(ابو داؤد، جلد 2، صفحہ 127)، (صحیح ترمذی ، جلد 2، صفحہ 45)، حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ابوذر! نبیوں میں سب سے پہلے نبی آدمؑ اور سب سے آخری نبی محمدؐ ہیں‘‘، حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپﷺ خاتم النبیین ہیں‘‘ (جامع ترمذی)۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’رسالت اور نبوت تو ختم ہو چکی ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی، یہ بات صحابہ پر شاق گزری تو آپﷺ نے فرمایا ’’مبشرات باقی ہیں‘‘، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’مبشرات کیا ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’سچے خواب اور وہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں‘‘ (جامع ترمذی)۔

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’میں اللہ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین مقرر ہو چکا تھا جب آدمؑ ابھی گارے ہی کی شکل میں تھے‘‘ (صحیح ترمذی)، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے، مجھے جامع کلمات عطا ہوئے، دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈال کر مجھے فتح و نصرت عطا فرمائی گئی، مالِ غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا گیا، ساری زمین کو میرے لئے سجدہ کی جگہ اور پاک کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا، ساری مخلوق کیلئے مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کر دیا گیا‘‘(صحیح مسلم ، جلد 1، صفحہ 199)۔

تمام اُمت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، ختم نبوت کا تحفظ صحابہ کرامؓ کا شیوہ رہا ہے اسی لیے حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کرامؓ کا ایک لشکر اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کی سرکوبی کیلئے روانہ کیا، جنگ یمامہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی جس میں بہت سے صحابہ کرامؓ شہید ہوئے لیکن اس فتنے کو مکمل مٹا ڈالا گیا۔

خلیفہ اوّل سیدّنا ابوبکر صدیقؓ خطبہ دے رہے تھے: ’’لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے، اہل بدر ہوں یا اہلِ احد، یمامہ کا رخ کرو‘‘، بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے: ’’مدینہ میں کوئی نہ رہے حتیٰ کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں‘‘، صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ اگر حضرت علی المرتضیٰ، سیدّنا صدیقِ اکبرؓ کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے۔

ہزار کے مقابل بنو حنفیہ کے جنگجو اسلحہ سے لیس کھڑے تھے، جنگِ یمامہ وہ جنگ تھی جس کے متعلق اہلِ مدینہ کہتے تھے بخدا ہم نے ایسی جنگ نہ پہلے کبھی لڑی نہ بعد میں لڑی، ختمِ نبوت کے دفاع میں صحابہ کرامؓ کٹے جسموں کے ساتھ مقتل میں پڑے تھے، انصار کا وہ سردار ثابت بن قیس جس کی بہادری کے قصّے عرب و عجم میں مشہور تھے اس کی زبان سے جملہ ادا ہوا: اے اللہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برات کا اظہار کرتا ہوں۔

چشمِ فلک نے وہ منظر دیکھا جب وہ اکیلا ہزار کے لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہ بچی جہاں شمشیرو سناں کا زخم نہ لگا ہو، عمر بن خطابؓ کے بھائی زید بن خطابؓ جو اسلام لانے والوں کی صفِ اوّل میں شامل تھے انہوں نے مسلمانوں میں آخری خطبہ دیا ’’واللہ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک انہیں شکست نہ دے دوں یا شہید نہ ہو جاؤں‘‘، بنو حنفیہ کا باغ حدیقتہ الرحمان میں اتنا خون بہا کہ اسے حدیقتہ الموت کہا جانے لگا، اس باغ کی دیواریں مثل قلعہ کی تھیں۔

کیا عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ ہزاروں کا لشکر ہو اورحضرت برابن مالکؓ کہیں: ’’اے مسلمانو! اب ایک ہی راستہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر قلعے میں پھینک دو، میں تمہارے لیے دروازہ کھولوں گا‘‘، انہوں نے دیوار پر کھڑے ہوکر منکرین ختم نبوت کے اس لشکر کو دیکھا اور پھر تن تنہا اس قلعے میں چھلانگ لگا دی قیامت تک جو بھی بہادری کا دعویٰ کرے گا یہاں وہ بھی سر پکڑ لے گا! ایک اکیلا شخص ہزاروں سے لڑ رہا تھا، اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور پھر مسلمانوں نے منکرین ختم نبوت کو کاٹ کر رکھ دیا۔

خاتم الانبیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا آئے لیکن دنیا آج ان میں سے اکثر کے ناموں سے بھی آگاہ نہیں، قرآن مجید سے پہلے بہت سی کتابیں نازل ہوئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ نہیں جبکہ نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآن اور اس کا ایک ایک حرف محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔

آپﷺ کی شریعت کو محفوظ رکھا گیا جبکہ آپﷺ سے پہلے انبیا کی شریعت یا تو مٹ گئیں یا ان میں اس قدر ردّ و بدل ہوگیا کہ وہ اپنی اصل صورت میں موجود نہیں، آپﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا ایک ایک پہلو روزِ روشن کی طرح واضح ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضور نبی کریمﷺ ہی سے قیامت تک لوگ ہدایت پائیں گے اس پر نبی کریمﷺ کا درج ذیل فرمان مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے:ترجمہ: میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(صحیح بخاری ، صفحہ633)

قادیانیت ایک بہت بڑے فتنے کی صورت میں نمودار ہے، پس ہر صاحب ایمان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کے سدباب کی کوششوں میں شریک ہو، عقیدہ ختمِ نبوت پر ثابت قدم رہیں بلکہ اس کے تحفظ کیلئے بھی سرتوڑ کوششیں کریں، اللہ تمام مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور نبی کریمﷺ کی روز محشر شفاعت عطا فرمائے۔ (آمین)

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود
ختمِ دَورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد لکھ رہے ہیں۔