ویڈیو ریکارڈنگ ثبوت نہیں صرف تحریری بیان مانا جائیگا کیس کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے عدالت حسین نواز کی سپریم کورٹ میں درخواست مسترد

ویڈیو ریکارڈنگ ثبوت نہیں صرف تحریری بیان مانا جائیگا کیس کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے عدالت حسین نواز کی سپریم کورٹ میں درخواست مسترد

حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کی تحقیقاتی رپورٹ کو عام کیا جائے ،عدالت، متعلقہ شخص کا ذکر نہیں، اٹارنی جنرل ، یہ انتہائی حساس معاملہ ، محتاط رہنے کی ضرورت ہے ، جسٹس شیخ عظمت

حکومتی ادارے عدالت کے بجائے میڈیا کو جواب دیتے ہیں ،جسٹس اعجاز الاحسن ،ایک اخبار نے فیصلہ ہی دیدیا ،پانچ کا ٹولہ یہ کام کر تاہے ،رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری اسلام آباد (نمائندہ دنیا ،مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی کو گواہان کی ویڈیو ریکارڈنگ سے روکنے کی حسین نواز کی درخواست مسترد کردی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ گواہان کی ویڈیو ریکارڈنگ ہوسکتی ہے ، جے آئی ٹی ویڈیو ریکارڈنگ جاری رکھے ، یہ بطور ثبوت پیش نہیں ہوسکتی، صرف تحریری بیان مانا جائیگا ،کیس کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے ، تصویر لیک کرنیوالے کیخلاف کارروائی ہوچکی ہے ۔ کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں۔ حکومتی ترجمان ناپ تول کر بولیں،اگر شکایت ہے تو رجوع کریں، پریس کانفرنس کے بجائے عدالت کو جواب دیں۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پرمشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت شرو ع کی تو سب سے پہلے جسٹس اعجاز افضل نے ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق حسین نواز کی درخواست پر محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا ، پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کے بیانات کو اس وقت تک بطورشہا دت قبول نہیں کیا جا سکتا جب تک قانون میں ترمیم نہ کر دی جائے ، آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ٹرانسکرپٹ کی تیاری کے لیے ہے ، بادی النظر میں ویڈیو ریکارڈنگ صرف اس مقصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے کہ گواہ کا بیان لکھنے میں کوئی غلطی نہ رہے ۔ ایسے بیانات کو قلمبند کر نے کے وقت اس سے سہولت حاصل کر نے کے عمل کی حوصلہ شکنی نہیں کی جا سکتی۔ ریکارڈ کی درستگی کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال قانون میں ممنوع نہیں ، جسٹس اعجاز افضل نے فیصلے میں کہا کہ عدالت میں جو ثبوت بھی پیش کیا جائے گا وہ تحریری صورت میں ہوگا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس سے متعلق بھارت اور دیگر ممالک میں قانون تبدیل ہو گیا لیکن پاکستان میں ابھی تک تبدیلی نہیں ہوئی ، جسٹس اعجاز افضل نے فیصلے میں کہا کہ جس شخص نے تصویر لیک کی اس کی نشاندہی ہو چکی ہے ، اس کے خلاف کارروائی بھی ہوچکی ہے لیکن اٹارنی جنرل صاحب آپ کی جانب سے جواب نہیں آیا اس لیے اس مرحلے پر درخواست گزار کی تصویر والے معاملے میں استدعا کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا ۔ فیصلے کے بعدجسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر ہماری یہ کارروائی پہلے سے شائع ہوچکی ہے اور اس کو دیکھا جائے تو پھر آپ (اشتر اوصاف) کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ جو فیصلہ منگل کو ہم نے دیناتھا وہ انہوں نے کل(پیر) ہی سنا دیا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جس رپورٹر نے کل یہ فیصلہ چھاپا اسے عالمی عدالت انصاف میں جج لگا دینا چاہیے ، جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل وفاق کے نمائندے ہیں، اگر کسی بھی ادارے کو سپریم کورٹ سمیت کسی بھی ادارے سے کوئی شکایت ہے تو وہ آپ کے ذریعے عدالت سے رابطہ کرسکتا ہے ، بجائے اس کے کہ میڈیا پر یہ معاملات اُچھالے جائیں، اگر آپ کسی کی طرف انگلی سے اشارہ کریں گے تو چار انگلیاں اپنی طرف بھی آتی ہیں۔ اس موقع پرجسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر کسی بھی شخص یا ادارے کو اس بینچ سے کوئی شکایت ہے تو وہ عدالت میں آکر درخواست دے ، اس کو قانون کے مطابق دیکھا جائے گا ۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اخبار پڑھ کر لگتا ہے اٹارنی جنرل کی ضرورت نہیں حکومتی ادارے عدالت کے بجائے میڈیا کو جواب دیتے ہیں ، کیس کو میڈیا ٹرائل نہ بنایا جائے ۔ حکومتی ادارے اخبارات میں خبریں چھپواتے ہیں، میڈیا ٹرائل یا میڈیا سرکس میں یہ مشق نہیں ہونی چا ہیے بلکہ تمام معاملات کو پیشہ ورانہ طریقے سے نمٹانا چا ہیے ، میڈیا کو بھی بڑی مقدار میں مواد فرا ہم کیا جاتا ہے ۔ اٹارنی جنرل خود ساختہ حکومتی ترجمانوں کو بتا دیں معاملے کو سنجیدہ لیں ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ قانونی عدالت ہے جو ہما رے علم میں آتا ہے ہم اس کے متعلق استفسار کر تے ہیں ،یہ چیزیں پریس کے ذریعے نہیں آنی چا ہئیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے حق میں آرٹیکل لکھوارہی ہے ،نا با لغ نہیں کہ سمجھ نہ سکیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مائی لارڈز ابھی ہم با لغ نہیں ہوئے ۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھے کہ میڈیا کے ذریعے عدالت کو یا پاناما کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے تو ایسا نہیں ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ارکان جو تفتیش کر رہے ہیں وہ سیکشن 172 کے تحت ہے ، وہ ان کا استحقاق ہے ۔ جے آئی ٹی کو تحفظات سے آزاد ہونا چاہیے ، بینچ کے سربراہ نے کہا کہ حکومت کا بوجھ اور ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے ، بہتر دلائل اور قانونی حوالوں سے ہی عدالت کی معاونت کی جا سکتی ہے ، آرٹیکلز یا سیاستدانوں کے بیانات ہمارے ذہنوں کو تبدیل نہیں کر سکتے ، سپریم کورٹ غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی،چاہتے ہیں عدالتی کارروائی ہی عوام تک پہنچے ، اٹارنی جنرل اپنے جواب میں معاملے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ذمہ داری کا احساس ہے ، عدالت کے اعتماد کو ذمہ داری سے نبھاؤں گا ۔ بطور اٹارنی جنرل دونوں اطراف کو احتیاط کا کہتا ہوں، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جس اخبار میں جو لکھنا ہے لکھے ، عدالت کسی سے خوفزدہ نہیں، ہمیں اپنے کام سے کوئی ڈی ریل نہیں کر سکتا، حکومتی ترجمان کو کہیں کہ ناپ تول کر بات کریں ۔ این این آئی اور اے این این کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ عدالتی کارروائی کو پوشیدہ رکھا جائے ، تاہم جے آئی ٹی کی رپورٹ کو خفیہ رکھا جائے گا،اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے رپورٹ جاری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں،بی بی سی کے مطا بق عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ تصویر لیک ہونے سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کو عام کیا جائے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں تصویر کو لیک کرنیوالے شخص کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تو پھر کیسے اس کا تعین کیا جاسکے گا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے ، اس لیے اس بارے میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جب اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ رپورٹ میں تصویر لیک کرنیوالے شخص کا تو نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا تعلق کس ادارے سے ہے جس پر بینچ کے تینوں ارکان نے آپس میں گفتگو کی اور اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ ایک موقع پر تحریک انصاف کے فواد چو ہدری نے پیش ہو کر کہا کہ مائی لارڈز پانچ کا ٹولہ میڈیا پر حساس معلومات لیک کر رہا ہے ۔ ہما رے پاس تو کوئی ایسی معلومات نہیں ہیں جن کو ہم ریلیز کر یں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس با رے میں حکومت پر بھا ری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،فواد چو ہدری نے کہا کہ ایک اخبار کو دیکھ لیں اس نے پھر فیصلہ ہی دے دیا ،صرف پانچ کا ٹولہ ہے جو ایسا کام کرتا ہے ،جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک منٹ رکیں آپ میرے بھائی یعنی جسٹس عظمت سعید کی گنتی کو چیلنج کررہے ہیں جنہوں نے ایسے افراد کی تعداد آٹھ بتائی ہے جبکہ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہماری گنتی خراب نہ کریں ، آٹھ لوگ ہیں ۔ جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔ ایک موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے جے آئی ٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو مہینوں کا وقت نہیں دیں گے ۔ مقررہ ٹائم میں تحقیقات پوری کریں ۔ بینچ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آئی بی کے با رے میں آپ اپنا جواب پیپرز بک کی صورت میں عدالت میں جمع کرا ئیں ، یہ نہ ہو کہ جواب میڈیا کے ذریعے عدالت تک پہنچے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا جائے کہ اگر الزامات میں صداقت ہے تو کیا قانونی کارروائی ہو سکتی ہے ؟ہما رے ذہنو ں کو مجبور نہ کر یں، اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہا نی کرا ئی کہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی اور وقار پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کیا جا ئے گا ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت عید الفطر کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سماعت بینچ کی تشکیل سے مشروط ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں