سانحہ ماڈل ٹاؤن : رپورٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
سانحہ ماڈل ٹا ؤ ن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ سامنے آگئی ہے ۔ماڈل ٹاؤن کا واقعہ انتہائی سنگین تھا اور اس کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے
(جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ) سانحہ ماڈل ٹا ؤ ن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ سامنے آگئی ہے ۔ماڈل ٹاؤن کا واقعہ انتہائی سنگین تھا اور اس کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے ۔حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ قانونی طور پر اس رپورٹ پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کیس کے حوالے سے اس رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں ہے،عدالتی کمیشن کی اہمیت اور قانونی حیثیت کیا ہے ؟ میر ے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس رپورٹ کی اپنی اہمیت ہے ۔جب کوئی بڑامسئلہ ہوتوکمیشن بنایاجاتاہے ۔یہ ایک اعلیٰ اختیاراتی تفتیشی کمیشن ہوتا ہے ۔آپ اسے اعلیٰ سطح پر پولیس انویسٹی گیشن کہہ سکتے ہیں انکوائری کمیشن کی بنیادپرکسی کوجیل نہیں بھیجاجاسکتا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اعلیٰ سطح پر ایک پولیس رپورٹ آئی ہے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعدملزم کو نامزد کیاجاتاہے ، جب اس کی بنیاد پر کارروائی شروع ہوگی تو ملزم بنیں گے ان کو ریکارڈ شدہ بیانات کی نقول دی جائیں گی اور ان کے وکیل کو جرح کا موقع دیا جائے گا۔تمام گواہوں کو دوبارہ بلایا جائے گاان کے بیانات دوبارہ ہوں گے ،ان پر جرح کی جائے گی ۔گویا یہ ایک قسم کی اعلیٰ اختیاراتی پولیس انویسٹی گیشن ہے ۔ کوئی قتل ہوجاتا ہے تو پولیس اس کی تفتیش کرتی ہے اور رپورٹ دیتی ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔اگر نظر انداز کیا جائے تو عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرسکتے ہیں اسی طرح اس رپورٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔