روپے اور ڈالر کی جنگ: کیا اچھا، کیا برا؟
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے اسکی کئی وجوہات ہیں ۔ایک تو گزشتہ چند بر سو ں میں تجارتی خسارہ بہت بڑ ھ چکا ہے ،جو تقربیاً 30 ارب ڈالر ہے
( سلمان شاہ) اس خسار ے کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ فنانسنگ کی ضرورت پڑے گی ،جس کیلئے شاید ہمارے پاس اتنے زیادہ وسائل نہ ہو ں،اس کے علاوہ آئندہ چند ماہ میں قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے ۔ اگر ہم نے برآمدات کو بڑھانا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں تواس کے لئے روپے کی قدر کو کم کرنا پڑے گا تاکہ برآمدات سستی ہوں جبکہ اس وقت ٹیکسٹائل کی برآمدات پر بہت زیادہ دبائو ہے جو 25 ارب ڈالر سے کم ہو کر اب 20 ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئی ہیں ،جس سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیاہے ۔یہ دوبڑی کمزوریاں روپے کی ْقدر میں کمی کا سبب بن رہی ہیں کیونکہ ایک تو رسک بڑھ رہا ہے اور دوسرا ملک کو ڈالرز کی ضرورت ہے اور جب اس کی طلب میں اضافہ ہوتاہے تو پھراس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتاہے ۔ یہ مسئلہ اس وقت تک چلے گا جب تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا یا غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہوتی جس سے اس خلا کو پر کیا جا سکے ۔ سرمایہ کاری کیلئے ماحول کو بہتر کرنا ہوگا،جس کیلئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاہم گزشتہ چند سالوں میں ہم نے اصلاحات پر کچھ خاص توجہ نہیں دی ،جس کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں ۔معاشی اصلاحات جو ہونی چاہئیں ان میں ایک تو بجلی بہت مہنگی ہے ،پہلے لوڈشیڈنگ ایک مسئلہ تھا، اب اگر وہ ختم بھی ہو جائے تو بجلی کی فی یونٹ قیمت بہت زیادہ ہے ۔ بجلی جتنی مہنگی ہو گی اس کا برآمدات اور زراعت پر اتنا ہی منفی اثر ہو گا۔ٹیکس کا نظام بھی فرسودہ ہو چکا ہے ،جس کیلئے ایسی ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے ٹیکس کی شرح نیچے آئے اور ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو تاکہ مینو فیکچرنگ سیکٹر پر بوجھ میں کمی آ سکے ۔ اس کے علاوہ بیورو کریسی کو درست کرنا پڑے گاتاکہ سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں کم ہوں اور لوگ مینو فیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کریں اور اس کی استعداد بڑھے ۔اس کے علاوہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل جیسے ان کے ری فنڈز نہیں ہوتے ،ان کی قیمتوں میں بے تاثیر ی آجاتی ہے ،ان کی پیداواری لاگت بھی باقی دنیا سے زیادہ ہے جس کو کم کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کا بنیادی ایجنڈا اصلاحات ہونا چاہیے تاکہ ایک ایسا ماحول بنے جس میں سرمایہ کاری ہو اورمنافع بھی تاکہ کاروبار دنیا بھر کے کاروباروں کا مقابلہ کر سکیں ۔ جب کوئی چیز دبائو میں آتی ہے تو اس پر افواہوں کا بھی دبائو بڑھتا ہے چونکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے جو اس طرف اشارہ کرتاہے کہ کرنسی کی قدر جو ہونی چاہیے ،اس سے زیاد ہ ہے اورجب اس کو بڑھائیں گے تو بتدریج خسار ہ کم ہونا شروع ہو گا۔ لہذا روپے کی قدر پر دبائو حقیقی ہے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ پھر افواہیں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ روپے کی قدر میں کمی سے ایک نقصان تو یہ ہوگا کہ غیر ملکی کرنسی میں قرضوں کا بوجھ اور زیادہ بڑھ جائے گا کیونکہ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مزید ایک روپیہ کم ہو تی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 70 ارب ڈالر کے قرضوں میں 70 ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا،دوسری طرف درآمدات بھی مہنگی ہو نگی ۔افراط زر میں بھی اضافہ ہو سکتاہے اور چونکہ اشیا تیار کرنے کیلئے خام مال بھی درآمد کیا جاتاہے تو ان کی قیمتیں بڑھنے سے اشیا کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہو گا ،جس سے معاشی ترقی کی رفتار بھی کم ہو سکتی ہے ،اسی طرح جو منصوبے لگ رہے ہیں ان کی لاگت میں بھی اضافہ ہو گا جس سے وہ کارآمد نہ رہنے کا خدشہ بھی پیدا ہو سکتاہے ،ان سب چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاہم اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر برآمدات بڑھ جاتی ہیں اورکرنٹ اکائونٹ خسارے کو قابو کرلیتی ہیں تو پھر ادائیگی کے توازن میں جو مسائل ہیں وہ کم ہو جائیں گے ۔