آزاد امیدوار بننے کا اعلان :مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی
جنوبی پنجاب کے بڑے سیاسی گھرانے ملک کی تینوں بڑی جماعتوں سے مایوس ہیں
جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی تحریک کی بنیاد پر بعض اراکین اسمبلی کی جانب سے مسلم لیگ ن کے خلاف آزاد امیدوار بننے کے اعلان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے اعلان پر اور اراکین بھی ان کے ساتھ آ ملیں گے ۔ جنوبی پنجاب کے مذکورہ اراکین اسمبلی کا مذکورہ اقدام واقعتاً نئے صوبے کے قیام کیلئے ہے یا ن لیگ کو سیاسی زد پہنچانے کا عمل ہے ۔نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، اور کیا آنے والے انتخابی عمل میں نئے صوبوں کے قیام کے نعرے کو پذیرائی مل سکے گی؟ یا نئے صوبوں کے اعلانات محض انتخابات میں اپنی سیاسی جیت کو پیش نظر رکھ کر کئے جا رہے ہیں ۔ اس امر میں شک نہیں کہ پاکستان کے بڑے مسائل میں گورننس ایک بہت بڑے مسئلہ کے طور پر سامنے آئی ہے دنیا کے جمہوری ممالک میں گورننس کو یقینی بنانے کیلئے ضلعی حکومتوں سمیت ایسے ادارے قائم کئے جاتے ہیں جہاں سے عوام الناس کو ریلیف ملتا ہے پاکستان میں ضلعی حکومتوں کے سسٹم کی بحالی اور انتخابات کے باوجود ان اداروں کا فعال کردار نہ ہونے کے باعث اب نئے صوبوں کی بات ہو رہی ہے جہاں تک نئے صوبوں کے قیام کا سوال ہے تو دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً ہمارے ہمسایہ ملک بھارت چین میں بھی انتظامی استحکام اور عوام الناس کو ریلیف دینے کے لئے بڑے یونٹس کو چھوٹے یونٹس میں تقسیم کیا گیا اور یہ سارا عمل سیاسی مفادات کے تابع بنانے کے بجائے خالصتاً انتظامی بنیاد پر ہوا بدقسمتی سے نہ تو یہاں ضلعی حکومتوں کا سسٹم فعال اور موثر بن سکا اور نہ ہی بڑے صوبوں کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کر کے گورننس کے خواب کو حقیقت کا رنگ دیا جا سکا جہاں تک اس مرحلہ پر جنوبی پنجاب کے اراکین کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے نام پر میدان میں آنے کی بات کی گئی ہے تو ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ اس کا مقصد نئے صوبوں کے قیام کے بجائے اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنی جیت کو یقینی بنانا ہے اور اس حوالہ سے ان کے سیاسی کردار کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں انہوں نے منتخب ایوانوں کے اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالہ سے کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی ان اراکین اسمبلی کی جانب سے کوئی قرارداد یا تحاریک التوا ریکارڈ پر ہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سرائیکی صوبہ بنانے کی تحریک پر سیاسی محاذ پر بھونچال آیا لیکن جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس پر عملی پیشرفت کے بجائے قرارداد پر ہی اکتفا کیا اور خود مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی نئے صوبوں کے حوالہ سے سنجیدگی ظاہر کرنے کے بجائے پنجاب کی مزید دو صوبوں میں تقسیم ، جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کیلئے قراردادیں اسمبلی ریکارڈ پر موجود ہیں۔جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 45 کے قریب ہے اور یہ تعداد کسی ایک صوبہ کی نشستوں کے برابر ہے ۔ مگر وسائل کی تقسیم یا وسائل میں سے حصہ اس خطہ کو اتنا نہیں مل رہا جتنا درکار ہے ۔جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر اس کے خلاف انتخاب لڑنے والوں کا اعلان محض ہنگامی ہے تو ایسا نہیں ہے یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں البتہ ایک خاص پلاننگ کے تحت ہی انہیں آزاد حیثیت میں میدان میں اتارا جا رہا ہے فی الحال یہ نہ تو پیپلز پارٹی کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی اپنا سیاسی وزن تحریک انصاف کے ساتھ ڈالیں گے البتہ انتخابات ہر قیمت پر آزادانہ حیثیت میں جیتنے کے لیے تگ و دو کریں گے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب سے آزادانہ حیثیت میں جیتنے والے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کریں گے ۔جنوبی پنجاب سے آمدہ اطلاعات کے مطابق فی الحال مسلم لیگ ن چھوڑنے والے اپنا سیاسی وزن کسی جماعت کے ساتھ نہیں ڈالیں گے اور حالات اور انتخابات کے رخ کا اندازہ کریں گے تاکہ کسی قسم کا سیاسی رسک نہ لیا جائے البتہ جنوبی پنجاب میں آنے والی اس سیاسی تبدیلی کے پیچھے عمران خان سے زیادہ خود آصف زرداری کے سگنل محسوس کئے جا رہے ہیں جو پیپلز پارٹی کی پنجاب میں سیاسی حیثیت کی بحالی سے مایوس ہو کر بلوچستان فارمولہ بروئے کار لانے کیلئے سرگرم ہیں جس کیلئے مرکز جنوبی پنجاب کو بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں اپر پنجاب کی نسبت کچھ بہتر پوزیشن پر کھڑی ہے ۔ جنوبی پنجاب کے بڑے سیاسی گھرانے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام اور سرائیکی خطے کی محرومیوں کے حوالے سے ملک کی تینوں بڑی جماعتوں سے مایوس ہیں کیونکہ کسی جماعت کے پاس سرائیکی علاقوں کیلئے کوئی واضح ٹھوس اور جامع پروگرام نہیں اس لیے بڑے انتخابی نام کسی بڑی سیاسی جماعت میں جانے سے گریزاں ہیں کہ محروم عوام کا غیض و غضب انہیں سیاسی میدان سے آؤٹ نہ کر دے ۔