سپریم کورٹ کمرہ نمبر ایک سے

سپریم کورٹ کمرہ نمبر ایک سے

ہفتے کی صبح چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار مینٹل ہسپتال اور سروسز ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد جب کمرہ عدالت نمبرایک میں پہنچے تو عدالتی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا

( اجمل جامی، حسن رضا) ہفتے کی صبح چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار مینٹل ہسپتال اور سروسز ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد جب کمرہ عدالت نمبرایک میں پہنچے تو عدالتی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عام سائلین کے علاوہ بڑی تعداد میں پنجاب حکومت کے افسر شدید گرمی میں بھی سوٹ پہنے ،ٹائیاں لگائے ، ہاتھوں میں سبز ڈائریاں تھامے کرسیوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے جبکہ ان کا معاون عملہ فائلوں کے ڈھیر تھامے افسروں کے بیٹھنے کیلئے گنجائش نکالنے میں مصروف دکھائی دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے روسٹرم پر سیکرٹریز، وکلا، نیب حکام، پراسیکیوٹرز اور کیسز سے متعلقہ افراد قطار میں کھڑے تھے ۔ وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق صبح8بجے سے ہی احاطہ عدالت میں موجود تھے جبکہ ان کے برادرم عزیز وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عدالتی طلبی پر آدھ گھنٹے کے وقفے سے کمرہ عدالت میں پہنچ گئے ، آدھ گھنٹہ پچھلی نشستوں پر براجمان رہنے کے بعد خواجہ سعد رفیق چیف جسٹس کے سامنے بائیں جانب پہلی قطار کی پہلی نشست پر براجمان ہوئے ۔ ہم نے دیکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ وقت مقررہ سے بھی پہلے عدالتی احاطے میں موجود ہیں۔ کمرہ عدالت میں موصوف مسلسل کسی وظیفے کا ورد کرتے دکھائی دیئے ۔ ان کے چہرے پر پریشانی کے رنگ نمایاں تھے ، صحافیوں کو دیکھ کر ہاتھ جوڑ کر سلام کا جواب دیتے رہے ۔ عوامی مسائل کے علاوہ ہسپتالوں کی حالت زار، ہسپتالوں کے فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے سے متعلق از خود نوٹس، پنجاب کی 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن، پاکستان ریلویز میں مبینہ کرپشن اور خسارے ، وزرا اور بیوروکریٹس کے زیر استعمال لگژری گاڑیوں کے خلاف از خودنوٹس، صاف پانی کی عدم فراہمی سمیت 17کیسز کاز لسٹ میں درج تھے ۔ لگژری گاڑیوں کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ مجموعی طور پر پنجاب میں 227 لگژری گاڑیاں افسروں کے زیر استعمال ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا چند اعلٰی افسروں کو لگژری گاڑیوں سے نوازنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام اور ماتحت افسروں کا مورال ڈاؤن ہو جاتاہے ۔ ایسی بیش قیمت ایک ایک گاڑی کا خرچہ نکالیں تو آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ تمام افسروں کی فہرست ، سروس سٹرکچر اور تنخواہوں کی تفصیلات آئندہ سماعت کے د وران سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائیں۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر استفسار کیا کہ کمپنیوں کے سربراہان آئے ہوئے ہیں؟ کمرہ عدالت میں موجود مختلف کمپنیوں کے نمائندوں نے ہاتھ کھڑے کئے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کسی بھی کیس میں تفتیش کے دوران متعلقہ افسروں کیساتھ عزت و احترام کیساتھ پیش آیا جائے جب تک الزام ثابت نہ ہوجائے کسی کو ہراساں نہ کیا جائے ۔ پھر باری آئی ان کمپنیوں کے حوالے سے نیب حکام کے مؤقف کی تو نیب کے نمائندوں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ مجموعی طور پنجاب میں71کمپنیاں بنائی گئیں۔ ان کمپنیوں کے لئے 193ارب روپے مختص کئے گئے ۔ 95 ارب روپے ترقیاتی کاموں کی مد میں جبکہ 98 ارب روپے غیر ترقیاتی فنڈز کیلئے مختص ہوئے ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر ترقیاتی فنڈز یقیناً تنخواہوں ، گاڑیوں اور ایسے ہی دیگر کاموں کیلئے رکھے گئے ہوں گے ۔ یہ تو انتہائی کمال بجٹ ہے ۔ اس سے سمجھ آتی ہے کہ ہو کیا رہا ہے ۔ نیب حکام نے مزید بتایا کہ ان کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز، چیف فنانس آفیسرز اور دیگر حکام کی تعیناتیاں شفاف انداز میں عمل میں نہیں لائی گئیں۔ ان میں سے اکثر کو متعلقہ شعبہ جات کا تجربہ نہیں تھا، کچھ کا تعلق تو ڈی ایم جی گروپ سے تھا اور ان افسروں کی تنخواہیں ساڑھے 3 لاکھ سے لے کر16لاکھ تک رکھی گئی ہیں ۔ اب تک 20 کمپنیوں کی آڈٹ رپورٹ حاصل کی ہے ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب تشریف رکھتے ہیں؟ خواجہ سعد رفیق اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور ہاتھ بلند کر کے اثبات میں جواب دیا۔ چیف جسٹس نے وزیر ریلوے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ آج آپ کیساتھ کچھ نہیں ہوگا، آپ نے پہلے بھی ہاتھ جوڑے تھے ۔ قطعا آپ سے اونچی آواز میں بات نہیں ہو گی، آپ تشریف رکھیں، آپ کو مخاطب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کمپنیوں کے معاملات کی تفصیلات سنیں۔ چیف جسٹس کو مزید بتایا گیا کہ پنجاب میں یہ کمپنیاں2011ئسے 2018ئکے دوران بنائی گئیں۔ آشیانہ ہائوسنگ سکیم کی دونوں سکیموں پر ہاتھ ڈالا تو عجیب و غریب داستانیں اور حقائق سامنے آئے ۔ آشیانہ اقبال فیروز پور روڈ پر بنائی جانی تھی پھر اچانک اس کا تعلق پیراگون سے جا نکلتا ہے ۔ صاف پانی سکیم پر عدالت کو بتایا گیا کہ ایک پلانٹ پرڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے گئے ، فی پلانٹ تقریباً 50 فیصد زائد خرچ کیا گیا۔ سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کمپنیوں میں سے 16 بند پڑی ہیں اورکئی ایک کا آڈٹ ریکارڈ تاحال نیب حکام کو موصول نہیں ہوا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ان کمپنیوں کے سربراہان کو مخاطب کر کے ریمارکس دئیے کہ اس موقع سے مستفید ہو کر قوم کی نظروں میں سرخرو ہو جائیں یقین دلاتا ہوں کہ سب کو انصاف ملے گا، بے اعتباری کی کوئی گنجائش نہیں، بے اعتباری کی بیماری قوم کو ایویں ہو گئی ہے ۔ کیوں نہیں ملے گا انصاف؟ انصاف ضرور ملے گا۔ نیب حکام کو ایک بار پھر مخاطب کرتے ہوئے معزز بینچ نے ریمارکس دئیے کہ کسی شخص کی تضحیک ہر گز ہر گز نہ کی جائے ۔ نیب کے نمائندے نے جواب دیا کہ ہم ہر آنے والے کیساتھ انتہائی عزت و احترام کیساتھ پیش آتے ہیں، چائے ، قہوہ اور کافی تک پیش کی جاتی ہے ، یہ سنتے ہی پورے کورٹ روم میں قہقہے بلند ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا دوبارہ بتائیں آپ کیسے لوگوں کی عزت کرتے ہیں تو ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے دوبارہ یہی جملہ دوہرایا، اس موقع پر معزز بینچ بھی مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔ انویسٹی گیشن کا ذکر چھڑا تو چیف جسٹس نے ایک قصہ سنایا انہوں نے بتایا کہ ایک سیشن جج ہوا کرتے تھے ، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پولیس اہلکار سخت طریقے سے انویسٹی گیشن کرتے ہیں۔ ایک بار ان کے اپنے گھر چوری ہو گئی، مقدمہ درج ہوا، ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس پر شک ہے انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ چوری خیر دین اور محمد دین نے ہی کی ہو گی۔ چار دن پولیس ان ملزموں سے تفتیش کرتی رہی، سیشن جج صاحب برہم ہوئے کہ ابھی تک کوئی چیز ریکور نہیں ہوئی اورتھانے جا پہنچے ۔ پولیس اہلکاروں نے کہا کہ لیجئے آپ کے سامنے انویسٹی گیشن کرتے ہیں پوچھا ہاں بھئی خیر دین چوری کی؟ اس نے کہا نہیں، ہاں بھئی محمد دین چوری کی جواب ملا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی انویسٹی گیشن بھی نہیں چاہئے ، سوال پوچھنا پڑیں گے سخت سے سخت سوال بھی پوچھنا ہوگا لیکن عزتیں اچھال کر نہیں۔ ڈی جی نیب نے پنجاب پاورڈویلپمنٹ کمپنی بارے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اس کمپنی سے ایک ملزم گرفتار ہوا اس شخص نے ایرا سے 20 کروڑ روپے لئے ان میں سے 6 کروڑ وزیر اعلیٰ پنجاب کے داماد علی عمران کو بینک ٹرانزیکشن کے ذریعے منتقل کئے اس کے عوض انہیں ایرا سے لا کر پنجاب پاور کمپنی میں لگوایا گیا یہاں سے بھی اس شخص نے 20کروڑ روپے سائیڈ پر کر لئے اور ان 20 میں سے بھی ساڑھے 5 کروڑ علی عمران کو منتقل کئے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دیکھئے ہوسکتا ہے کہ آپ کی تحقیقات غلط ثابت ہو جائیں۔ جس پر ڈی جی نیب نے کہا ہمارے پاس بینکنگ ٹرانزیکشن کا مکمل ریکارڈ موجود ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے دوبارہ ریمارکس دئیے کہ آپ کو دی گئی پاور قانون کے زیر اثر ہے ، تاثر نہ ابھرے کہ آپ کسی کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اپنے کیس پر فوکس کریں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یوں نہ کریں کہ جیسے بٹیرا ہتھ آ گیا ۔ انہوں نے نیب کو ہدایات دیں کہ ہر 15 روز بعد ان کمپنیوں بارے رپورٹ سے آگاہ کریں۔ صاف پانی کمپنی کیس میں جب کیپٹن (ر)محمد عثمان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کس کھاتے میں 14 لاکھ 50 ہزار روپے بطور تنخواہ وصول کر رہے ہیں؟ ۔ کیپٹن عثمان نے کہا مجھے کچھ وقت دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بہت وقت دے دیا یہاں وقت نہیں اب آپ گریڈ 20 کے افسر ہیں ایک لاکھ30ہزار آپ کی تنخواہ بنتی ہے ، صاف پانی کمپنی میں آپ 14لاکھ 50 ہزار وصول کر رہے ہیں اس کمپنی میں خدمات سرانجام دینے کے لئے آپ کی کیا مہارت ہے ؟ اس موقع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ نے اب تک جتنی تنخواہ وصول کی وہ ایک ماہ کے اندر اندر واپس کریں۔ کیپٹن عثمان نے کہا میں نے آپ کی عزت میں اس ماہ کی تنخواہ وصول نہیں کی، تنخواہوں کے حوالے سے سرکار کی یہ پالیسی 2014ئمیں متعارف کرائی گئی، میں2017ئسے اس عہدے پرہوں، میں نے 1993 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن عثمان اپنی اب تک کی سروس کا مزید ریکارڈ پیش کرتے چیف جسٹس نے انہیں روکتے ہوئے کہا آپ اور باقی تمام سربراہان اپنی تمام تر وصول کردہ تنخواہیں واپس کریں۔ سرکاری ملازم کی حیثیت سے جو آپ کی تنخواہ بنتی ہے اسے نکال کر باقی تمام پیسہ واپس کیا جائے ۔ آپ گریڈ 20 کے افسر ہیں آپ ڈی سی لگے تھے جب سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیا پھر اشتہار آگیا اور آپ اس کمپنی میں لگ گئے ۔ چار بلین روپے خرچ ہوئے اور ایک بوند پانی نہیں ملا۔ چیف سیکرٹری پنجاب خود کہہ چکے کہ ایک بوند پانی آپ نے فراہم نہیں کیا۔ میں ٹھیک کہہ رہاہوں ناں چیف سیکرٹری صاحب! چیف سیکرٹری نے فوراً چیف جسٹس کو اثبات میں جواب دیا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ نیب حکام نے اس موقع پر عدالت کو آگاہ کیا کہ اب تک 17 کمپنیاں مکمل ریکارڈ جمع کرا چکی ہیں، 16 نے تاحال کوئی جواب جمع نہیں کرایا جبکہ71میں سے 38 کمپنیوں نے ادھوراریکارڈ فراہم کیا ہے ۔ پھر چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب، بتائیں ریلوے کا فرانزک آڈٹ آپ کس کمپنی سے کروانا چاہتے ہیں؟ خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے 15 آڈٹ کمپنیوں کے فہرست خواجہ سعد رفیق کی جانب لہراتے ہوئے استفسار کیا کہ بتائیں کس کمپنی سے آڈٹ کروانا چاہتے ہیں۔ اپنی مرضی سے کسی کمپنی کا انتخاب کر لیں تا کہ کل کسی کو اعتراض نہ ہو۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جناب چیف جسٹس یہ فہرست ہم نے ہی فراہم کی ہے ، میرے پاس یہ فہرست موجود ہے ۔ وزیر ریلوے بار بار چیف جسٹس کو 'آنرایبل' چیف جسٹس کہہ کر مخاطب ہوتے رہے ، ان کی باڈی لینگو یج میں بھی خاصی عاجزی جھلک رہی تھی، چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے خواجہ سعد رفیق کو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ 'آنرایبل' کا لفظ نکال دیں، آنرایبل شخص ہر جگہ آنرایبل ہوتا ہے ۔ عدالت میں قابل احترام کہتے ہیں بعد میں آپ کی بات میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ اگر اندر کسی کو 'آنرایبل' کہا جائے تو پھر باہر بھی 'آنرایبل' سمجھا جائے ۔ سعد رفیق نے مؤدبانہ گزارش کی کہ جناب میں نے باہر بھی عزت مآب ہی کہا ہے ۔ مجھے سمجھ ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اس موقع پر چیف جسٹس مسکرائے اور ریمارکس دئیے کہ ریلوے کا آڈٹ فرگوسن کمپنی کو دیا جاتا ہے کمپنی پاکستان ریلوے کا گزرے پانچ سالوں کا آزادانہ اور شفاف فرانزک آڈٹ کرائے اور چھ ہفتوں میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے ۔ سعد رفیق نے استدعا کی کہ جناب پانچ نہیں، پچھلے دس برسوں کا آڈٹ کرائیں تاکہ ہماری کارکردگی کھل کر سامنے آسکے ۔ چیف جسٹس نے کہا وہ بعد میں کرالیں گے پہلے یہ آڈٹ ہونے دیں۔ وزیر ریلوے نے دوبارہ استدعا کی کہ دس سال کا آڈٹ ہونے سے تصویر واضح ہوگی ۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ صاحب! آڈٹ بر سراقتدار کا ہوتا ہے ، جو چلے گئے ان کا نہیں۔ جب تک ہم ہیں ہم معاملات سدھارنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے بعد آنے والوں کے لئے ایک سسٹم بن جائے ۔ چیف جسٹس نے کیس سے ہٹ کر ریمارکس میں وزیر ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہم نے کچھ لوگوں سے سکیورٹی واپس لینے کے احکامات جاری کئے اس پر ناراضی کا اظہار کیا گیا، سکیورٹی ان کو دی جائے جن کا حق ہے ، جنہیں قانون اجازت دیتا ہے ، کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا مقصد نہیں، صوبے ایسی شخصیات کا جائزہ لیں اور جہاں ضروری ہو سکیورٹی فراہم کی جائے ۔ وزیر اعلی ٰپنجاب کے سابق سیکرٹری توقیر شاہ کی بیرون ملک تقرری کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت نے حکومت کو توقیر شاہ کی تقرری میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روک دیا اور ڈاکٹر توقیر شاہ کے بیرون ملک جانے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ توقیر شاہ کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں کیسے تقرری ہوئی۔ اس موقع پر توقیر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ آٹھ مئی کو ڈبلیو ٹی او ممبران ممالک کی کانفرنس ہے اور پاکستان اس کا کنوینر ہے ، بیرون ملک جانے سے متعلق پابندی پر نظر ثانی کی جائے ۔ عدالت نے توقیر شاہ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کی تقرری کیسے ہو گئی جبکہ آپ کا سانحہ ماڈل ٹائون میں نام تھا۔ توقیر شا ہ نے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر میں نامزد نہیں ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں