عارف نقوی کون ہیں
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک عالمی کاروباری شخصیت عارف نقوی اس وقت دنیا کے مقتدر ترین اخبارت کی سرخیوں میں ہیں۔
(بی بی سی ) دنیا کی دلچسپی عارف نقوی کی پرائیویٹ ایکوٹی کمپنی ’ ابراج‘ میں ہے ، جو چند ماہ پہلے دیوالیہ ہوئی ہے ۔ عارف نقوی پر الزام ہے کہ انھوں نے ابراج ایکوٹی سے مبینہ طور پر سینکڑوں ملین ڈالر اپنے ذاتی اکائونٹ میں ٹرانسفر کئے ۔پاکستانی میڈیا کی دلچسپی عارف نقوی کی نواز شریف اور شہباز شریف کو ’تعاون‘ کے عوض مبینہ طور پر 20 ملین ڈالر کی پیشکش میں ہے جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک عارف نقوی کی کہانی مغرب میں آ کر بسنے والے ایک ایسے پاکستانی کی کہانی تھی جو اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر ارب پتیوں میں شمار ہونے لگے ۔1960 میں کراچی میں پیدا ہونے والے عارف نقوی نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور پھر لندن سکول آف اکنامکس سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے کیریئر کا آغاز لندن کے آرتھر اینڈرسن سے کیا اور پھر امریکن ایکسپریس میں کام کرنے کے بعد سعودی عرب کی سب سے بڑی ٹریڈنگ کمپنی اولیان گروپ کا حصہ بنے ۔ عارف نقوی نے 1994 میں اپنی بچت سے پچاس ہزار ڈالر کی لاگت سے کپولا نامی کمپنی قائم کی۔ اگلے چار برسوں میں عارف نقوی نے 102 ملین ڈالر کی کمپنی خریدی جسے وہ بڑے منافع پر بیچنے میں کامیاب رہے ۔ عارف نقوی نے 2002 میں ابراج ایکوٹی فرم قائم کی۔ عارف نقوی نے ایسے ممالک میں سرمایہ کاری کو اپنا بزنس ماڈل بنایا جسے مغربی دنیا میں ایمرجنگ مارکیٹ یا ابھرتی ہوئی معیشتوں کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنگ مارکیٹس کی صحت اور خوراک کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری ان معاشروں کے لیے فائدہ مند ہے ۔ عارف نقوی کا موقف تھا کہ مغربی سرمایہ کار ایمرجنگ مارکیٹ کو خطرناک قرار دے کر ان میں سرمایہ کاری سے انکار کرکے ناانصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ عارف نقوی کی کمپنی قیام کے پندرہ برسوں کے اندر دنیا کی سب سے بڑی ایکوٹی فرم بن چکی تھی اور دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے ان کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔عارف نقوی نے جس کمپنی کی نشو و نما پر سولہ برس صرف کیے اور اسے دنیا کی ایک انتہائی بااثر انویسٹمینٹ کمپنی میں تبدیل کیا اس کے دیوالیہ ہونے میں صرف چار ماہ کا عرصہ لگا۔ فروری 2018 میں ان پر الزام لگا کہ انہوں نے ابراج گروپ سے سینکڑوں ملین ڈالر اپنے ذاتی بینک اکائونٹ اور اپنے بچوں کی کمپنیوں میں ٹرانسفر کیے اور جون 2016 میں یہ کمپنی دیوالیہ ہو چکی تھی۔ مؤقر امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ عارف نقوی نے ابراج کمپنی سے 200 ملین ڈالر سے زیادہ رقم اپنے ذاتی بینک اکائونٹس، اپنے بچوں کی کمپنیوں اور اپنے ایک ساتھی کی کمپنی کو منتقل کیے ۔ عارف نقوی تردید کرتے ہیں کہ انھوں نے ابراج ایکوٹی سے فنڈز کو ٹرانسفر کر کے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے ۔ جب پاکستان نے کراچی الیکٹرک سپلائی کی نجکاری شروع کی تو ابراج گروپ نے اس میں سرمایہ کاری کی۔ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا کہ ابراج گروپ نے کراچی الیکٹرک میں اپنے حصہ کی فروخت میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ایک پاکستانی کاروباری شخصیت کے ذریعے انھیں 20 ملین ڈالر کی پیش کش کی۔ عارف نقوی نے تمام اطلاعات کو رد کیا ہے کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی کو رشوت کی پیشکش کی ۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے وکلا نے بھی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے موکل نے کبھی عارف نقوی سے کوئی لین دین نہیں کیا۔