نیب سے کیا توقعات ہیں ?
ڈی جی پنجاب کی جانب سے مختلف میڈیا چینلز پر دئیے جانے والے انٹرویوز ، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے اس پر ہونے والا واویلہ اور تحریک التوا ئے کار ،
( سلمان غنی) خود چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال کی جانب سے اس پر لیا جانے والا نوٹس اور میڈیا پر چلنے والے انٹرویوز کا ریکارڈ طلب کئے جانے کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نیب کے ایک زوردار شخص کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طرز عمل اور تحقیقاتی عمل کے چینلز پر بیٹھ کر کھلے عام اظہار نے خود نیب کے لیے پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ اس کے غیر جانبدارانہ کردار کے آگے سوالیہ نشان لا کھڑا کیا ہے اور اس حوالے سے آنے والے دباؤ کے بعد اپوزیشن اور دیگر طبقات کی جانب سے اس کے کردار پر از سر نو غور و خوض کیلئے دباؤ بڑھے گا لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ ڈی جی نیب کی جانب سے میڈیا پر آنے والے انٹرویوز ان کا ذاتی عمل تھا یا اس کے پیچھے کچھ اور تھا۔ نیب کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار میں ایسی گنجائش ہے کہ نیب کے ذمہ داران میڈیا پر آ کر اس پر اظہار خیال کر سکیں اور یہ کہ نیب جیسا آئینی ادارہ کیا غیر جانبدارانہ انداز میں ملک کے اندر کرپشن ’ لوٹ مار اور بدعنوانیوں کے ازالہ کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ جہاں تک احتسابی عمل کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس میں مؤثر احتسابی عمل قومی ضرورت ہے اور احتساب کے اس عمل کو ہر حوالے سے آزدانہ’ غیر جانبدارانہ اور کسی قسم کے انتقام سے عاری نظر آنا چاہیے لیکن اگر عملاً نیب کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو نیب نے احتسابی عمل میں اپنے قواعد و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کے بجائے اپنے پر پرزے پھیلائے اور ملک بھر میں ایک ایسی فضا طاری کر دی جس کے اثرات ملکی معیشت’ تجارت پر نظر آ رہے ہیں اور خصوصاً نئی حکومت جو کرپشن ’ لوٹ مار کے احتساب کے ایجنڈا کے ساتھ وجود میں آئی اس کی جانب سے آنے والے دباؤ نے بھی نیب کی کارکردگی کو متاثر کیا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی نیب کی کارکردگی کا نوٹس لے چکے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ احتساب کا یہ طریقہ کار درست نہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ کرپشن کے الزامات کے تحت پکڑے جانے والوں کے خلاف ریفرنس عدالتوں میں پیش نہیں ہوتا اور یہ کہ نیب کے کردار کے باعث کوئی بھی اپنے انجام کو نہ پہنچ سکا ، اسی دباؤ کے باعث نیب نے اور ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دئیے لہٰذا اب نیب کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کی توجہ مقدمات کی تیاری اور عدالتوں میں ریفرنس کی فراہمی کے عمل سے زیادہ پکڑ دھکڑ پر ہوگئی اور ان کے بعض ذمہ داران یہ سمجھنے لگے کہ میڈیا کو بروئے کار لا کر اپنی کارکردگی کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور یہی وہ تحریک ہے جس کی بنا پر ڈی جی نیب پنجاب سلیم شہزاد میڈیا چینلز پر وارد ہوئے اور انہوں نے چینلز پر بیٹھ کر مختلف سیاستدانوں’ حکومتی ذمہ داران اور خصوصاً شریف خاندان کے خلاف مقدمات اور اس بنا پر شروع تحقیقاتی عمل سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا جس کی خود نیب کے رولز بھی اجازت نہیں دیتے ۔ اس سے قبل بھی پنجاب میں ایک سابق صوبائی وزیر رانا مشہود خان کے خلاف تحقیقاتی عمل پر سابق ڈی جی نیب نے چینلز پر آ کر انٹرویو دینے کے عمل پر پابندی لگا دی تھی لہٰذا بڑا سوال یہ ہے کہ نیب کی کارکردگی میں اضافہ کرپٹ عناصر کو ان کے انجام پر پہنچانے سے ہو سکتا ہے یا میڈیا چینلز پر آ کر تحقیقاتی عمل پر مؤقف کے اظہار سے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈی جی نیب کے اس طرز عمل نے خود نیب کے ادارے کی کارکردگی کو بھی متاثر کیا ہے اور خود اسے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور بڑا سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ کیا نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ چینلز پر بیٹھ کر کسی کا میڈیا ٹرائل کرے ۔ اس کا نوٹس اب خود نیب کو ہی لینا پڑے گا۔ دوسری جانب مذکورہ ڈی جی نیب کی ڈگری کے حوالے سے پہلے ہی ایک کیس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مذکورہ کیس کی سماعت کے لیے 12 نومبر کی تاریخ مختص کر دی ہے مذکورہ کیس میں ایک شہری نے ڈی جی نیب سلیم شہزاد کی ڈگری کو چیلنج کر رکھا ہے یہ فیصلہ تو بہر حال عدالت کرے گی لیکن اس عمل نے بھی خود ڈی جی نیب اور ان کے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا ہے ، اس کا نوٹس پہلے سے خود ان کے ادارے کو ہی لینا چاہیے تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ احتسابی اداروں کے قیام کے باوجود پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ خود ان اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے ۔ احتساب کے حوالے سے ضروری سمجھا جاتا ہے احتساب کے ذریعہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے ، احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی جمہوریت بچانے کے نام پر اپنی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے ۔ اس حوالے سے نیب کی کارکردگی کو افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ماضی کی دونوں حکومتوں پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نیب کے ادارے کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور نیب اپنی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہے ، اس طرح ان شکوک و شبہات کو روز بروز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ تاہم موجودہ حکومت احتساب کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر کرتی نظر آئی مگر خود وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طرز عمل سے یہ ظاہر ہونے لگا کہ وہ سیاسی مخالفین کا احتساب چاہتے ہیں اور فوری چاہتے ہیں اور ایک موقع پر تو خود وزیراعظم عمران خان نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرا بس چلے تو پچاس مرغے پکڑ کر اندر کر دوں جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس آگ میں جل رہے ہیں اور وہ بھی نیب کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ بڑی پیچیدہ اور جمہوریت کے لیے خطرناک صورتحال ہے کیونکہ کرپشن کا خاتمہ ایسے ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کے لیے نیب کے کردار پر از سر نو غور کرنا پڑے گا نیب میں ایسے افراد کو لانا ہوگا جو باصلاحیت ’ دیانتدار اور خالصتاً پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل ہوں۔ ہر طرح کے دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے ایسے ڈلیور کریں کہ ان کے ادارے کی کارکردگی بڑھے ۔ اگر نیب کی پراسیکیوشن کا جائزہ لیاجائے تو یہ مؤثر نہیں ہوتی اور اہم اور مضبوط خبروں کی موجودگی کے باوجود دانستہ طور پر کیس کمزور رہتا ہے اور اس بنیاد پر عدالتیں بھی اپنے تحفظات ظاہر کرتی نظر آتی ہیں۔جہاں تک نیب کے ہاتھوں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے احتساب کے عمل کا تعلق ہے تو یہ تاثر عام ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں اور خصوصاً حکومت مخالف سیاستدانوں کا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس حوالے سے ایک انتشار کی کیفیت ہے ورنہ حقیقت حال یہ ہے کہ کرپشن میں صرف سیاستدان نہیں بلکہ بیورو کریٹس’ پولیس سمیت عام طبقات کے اہم افرادبھی شامل ہیں اور احتساب کا عمل اس لئے نتیجہ خیز نہیں ہوتا کہ نیب دباؤ سے آزاد نہیں۔ لاہور ہی میں ایک چھوٹے سرکاری اہلکار کے گھر سے 33 کروڑ کی برآمدگی کا عمل بھی ظاہر کر رہا ہے کہ کرپٹ عناصر نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے ہیں اور انہیں اثر و رسوخ کے حامل افراد کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔ لہٰذا ڈی جی نیب لاہور کے طرز عمل پر نوٹس کے ساتھ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ نیب حکام اپنے کسی ایجنڈا پر گامزن ہونے کے بجائے پوری توجہ اپنے اصل کام تک مرکوز رکھیں تبھی پاکستان کو کرپشن فری پاکستان بنایا جا سکتا ہے۔