کیا بھارتی جمہوریت خطرے میں ہے؟
انڈیا میں بین الاقوامی امور کے ماہرین کے سالانہ اجلاس ‘انڈیا ٹوڈے کانکلیو’ میں مشہور دانشور پرتاپ بھانو مہتا نے آنے والے عام انتخابات کو بے حد اہم بتایا ہے ۔
انھوں نے کہا کہ متعدد ماہرین کا خیال ہے انڈین جمہوریت کا وجود ان انتخابات کا مرکز ہو گا۔انڈیا میں گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے بارے میں پرتاپ بھانو مہتا نے کہا کہ اصلیت یہ نہیں ہے کہ انڈیا کی جمہوریت خطرے میں ہے بلکہ یہ کہ موجودہ حالات میں بہتری کی امید بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے ۔انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر 2019 کے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت میں توازن نہیں ہو گا تو انڈین جمہوریت خطرے میں آ جائے گی۔ پرتاپ بھانو مہتا نے کہامیں حکومت کے پانچ برس کے کام کاج کے بارے میں رپورٹ کارڈ کی طرح بات نہیں کروں گا۔ میں ان موضوعات کے بارے میں بات کروں گا جن کے بارے میں ہم گزشتہ پانچ برسوں میں بات نہیں کر پائے ۔ایک بات تو واضح ہے کہ انڈین جمہوریت نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ 2019 کے انتخابات میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے ، اور امید بہت کم ہے ۔سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ جمہوریت بچے گی یا نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں جو ماحول بنا ہے اس سے گزشتہ 10-15 برسوں میں جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ سب داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔‘ایسا اس لیے ہے کیونکہ مجھے لگ رہا ہے کہ ہماری جمہوریت کے ساتھ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو جمہوریت کی روح کو ختم کر رہا ہے ۔ ہم غصے سے جلتے دلوں، چھوٹی ذہنیت اور چھوٹی روح والے ملک کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔’جمہوریت آزادی اور جشن کا نام ہے جہاں یہ معلوم کرنا اہم ہوتا ہے کہ لوگ کہاں جا رہے ہیں اور نہ ہی یہ کہ وہ ماضی میں کہاں سے آئے ہیں۔قوم پرستی یا اپنی قوم کے مفادات کا والہانہ جذبہ اب ثابت کرنے کی چیز ہو گئی ہے ۔ قوم پرستی کا استعمال لوگوں کو بانٹنے میں کیا جا رہا ہے ۔ آپ جتنی چاہیں قوم پرستی کی باتیں کر لیں لیکن یہ معاملہ اب آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔سچائی یہ ہے کہ ہر سماج میں پراپیگنڈا ہوتا ہے ۔ ہر حکومت اپنے حساب سے سچائی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے ۔ ہر حکومت اپنے فائدے کے لیے ماحول بنانا چاہتی ہے ۔لیکن کیا آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ گزشتہ بیس برسوں میں معلومات پیدا کرنے کا مقصد صداقت نہیں ہے ؟ آپ سوچئے نہیں، سوال نہ پوچھئے ورنہ آپ ملک مخالف ہو جائیں گے ۔ پبلک ڈسکورس کا ڈھانچہ ہی ایسا بنایا جا رہا ہے ۔جمہوریت کا سب سے اہم عنصر آزادی ہے ۔ ہمیں یہاں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ غریب افراد کی مدد کرنے والے لوگ جیل میں ہیں۔ اصلیت یہ ہے کہ انڈیا کی کوئی بھی حکومت، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی رہی ہو، شہری آزادیوں کی بات نہیں کرتی۔شہریوں کی آزادی کے تحفظ کے موضوع پر حکومت حزب اختلاف کی پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر نہیں چلنا چاہتی۔جمہوریت کے بارے میں بات کرنا اب خطرناک ہو گیا ہے ۔ ملک گیا، صداقت گئی، آزادی گئی۔جدید بھارت میں مذہب کے آئیڈیا میں تیزی سے بنیادی تبدیلی آ رہی ہے ۔ اس کے تین زاویے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی طاقت کے لیے مذہب کا استعمال ہو رہا ہے ۔ مذہبی رہنما اقتدار کے سامنے جھک رہے ہیں۔دوسرا یہ کہ بڑی بڑی باتیں کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے ۔ جیسے یہ کہ ہم اپنے خدا کی حفاظت کریں گے ، بجائے اس کے کہ خدا ہماری حفاظت کرے گا۔اور تیسری اور اہم بات یہ کہ سبھی مذاہب کو ایک ہی حکومتی ڈھانچے میں آنا ہوگا۔ مذہبوں کو ایسی ایک جیسی شکل دے دی جائے کہ وہ ایک مشترکہ طاقت میں تبدیل ہو جائے ۔اصل میں مذہب ہمیں عدم مشابہت کی جانب لے جاتا ہے لیکن اب مذہب کو آپ کی شناخت میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے کسی بھی شخص پر حملہ کیا جا سکتا ہے ۔کچھ معاملوں میں سماج ہمیشہ ہی بدتہذیب رہا ہے ۔ لیکن تہذیب کے بارے میں اقدار طاقتور لوگ طے کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ان کا ایک واحد کام ہے ۔ان کا کام یہ طے کرنا ہے کہ کب کیا کہا جانا صحیح ہو گا اور کیا غلط۔ لیکن جب وہی لوگ آپ کو دھمکانے کا کام کریں اور لوگوں کو ملک مخالف قرار دیں تو کیا بچے گا؟ تہذیب بھی گئی۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ان تمام باتوں نے جمہوریت کو زخمی کر دیا ہے ۔ ہر اس یقین کو توڑا گیا ہے جو انڈیا کی جمہوریت اپنے شہریوں کو ایک دوسرے کے لیے دیتی ہے ۔اگر پانچ برسوں میں بننے والی یہ ثقافت جاری رہی تو آپ اپنی آزادی، صداقت، اپنے مذہب اور یہاں تک کہ اپنے ملک کو واپس نہیں لوٹا پائیں گے ۔ یہی 2019 کے عام انتخابات کا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔