گوادر کی افسوسناک کہانی
2015 کے بعد گودار کی کہانی نہایت افسوسناک ہے ، اس کا بنیادی سبب پاکستانی رہنماؤں کی بے عملی اور نااہلی ہے
(امتیاز گل)……2015 کے بعد گودار کی کہانی نہایت افسوسناک ہے ، اس کا بنیادی سبب پاکستانی رہنماؤں کی بے عملی اور نااہلی ہے ، جس طرح انہوں نے مواقع کو ضائع کیا اس کی وجہ سے یہ سخت تبصرہ ناگزیر تھا، اسی طرح گوادر کے بارے میں پاکستان کی نوکر شاہی کے طرز عمل سے بھی نہ صرف بے حسی بلکہ اہلیت سے محرومی کا اظہار ہوتا ہے ، ایک سرسری جائزے سے ہی یہ بات نمایاں ہوجاتی ہے کہ ملکی بیوروکریسی کا رویہ کسی کام کو عمدگی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنے کے مترادف ہے ، ملکی رہنماؤں اور بیوروکریسی کے اس طرز عمل کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان کے بلوچوں کو طویل عرصے سے حکمرانوں کے خلاف جو شکایات ہیں وہ بلاجواز نہیں بلکہ بالکل درست ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم اسی ہفتے پہلی مرتبہ گوادر کے نئے ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے ، یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ یہ کام ایسی فضا میں ہورہا ہے جب چینی حکومت اور متعلقہ چینی حلقے اس کام میں بلاجواز تاخیر پر سخت ناراض ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھنے میں جان بوجھ کر تاخیر کردی ہے ۔وزراعظم جب یہاں تشریف لائیں گے تو انہیں چاہیے کہ وہ تمام وفاقی اور صوبائی حکام سے پوچھیں کہ کیا گوادر کی آبادی کو ان کی ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کی جارہی ہے ؟ اس وعدے کا کیا ہوا کہ گوادر کو کوئلے سے بنائی گئی 300 میگا واٹ بجلی فراہم کی جائے گی ؟ وزیر اعظم کو یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کیا گوادر ٹاؤن اور فری انڈسٹریل زون کو وافر مقدار میں پانی فراہم کیا جارہا ہے ؟پانی کی جس نئی پائپ لائن کو بچھانے کا وعدہ کیا گیا تھا اس کا کیا بنا؟ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ہائی وے سے پائپ لائن گزارنے پر جو اعتراض کیا تھا وہ واپس لیا گیا یا نہیں ؟ یہ تنازع جو 2017 میں شروع ہوا تھا ختم ہوا یا اب بھی برقرار ہے ؟ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ اندر کے معاملات تک رسائی رکھنے والوں سے معلوم کریں کہ مخصوص مفادات رکھنے والے سیاسی حلقے اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے افراد منظم طریقے سے گوادر کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اس منصوبے کے خلاف جو حرکتیں کررہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ؟ خیال رہے کہ پورے گوادر ٹاؤن کو ایران سے 14 میگاواٹ بجلی ملتی ہے ، اس کے علاوہ سیاسی حلقوں میں رابطے رکھنے والا ‘‘ ٹینکر مافیا ’’ یہاں پانی فراہم کرتا ہے ، گوادر ٹاؤن کو پانی اور بجلی فراہم کرنے کی جو ناقابل اطمینان صورتحال ہے اس کی وجہ سے گوادر پورٹ کے چینی آپریٹرز نے وہاں ڈیزل سے چلنے والا 9.5 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا یونٹ نصب کردیا ہے تاکہ یہاں قائم ‘‘ نام نہاد’’ صنعتی علاقے کو کچھ نہ کچھ بجلی ملتی رہے ، یہی نہیں بلکہ انہوں نے یہاں نمکین سمندری پانی کو میٹھا بنانے کا پلانٹ بھی لگادیا ہے تاکہ گوادر کی کم از کم موجودہ ضروریات ہی پوری کی جاسکیں، اس کے علاوہ انہوں نے سامان اٹھانے والی کارگو کرینیں بھی پہنچادی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ سارے کام صرف 4 ماہ میں مکمل کرلیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب گوادر میں بھاری صنعتیں قائم ہوجائیں گی تو ان کی ضروریات کے مطابق بجلی کیسے ملے گی؟ اس لیے کہ ان صنعتوں کو کسی تعطل کے بغیر کہیں زیادہ بجلی کی فراہمی ضروری ہوگی، یہ ضرورت کیسے پوری کی جائے گی؟ اب یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گوادر ایئر پورٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے قبل کیا کچھ ہوتا رہا ہے ؟ ملک کے سیاسی اور عسکری قائدین کیلئے جو گوادر کا بہت زیادہ ذکر کرکے اسے سی پیک کے تاج میں جڑا ہوا ہیرا قرار دیتے ہیں یہ جائزہ خواب خرگوش سے بیداری کی صدا ثابت ہوگا، اب دیکھئے حقائق کیا ہیں، گوادر ایئر پورٹ اور سڑکوں کے 3 انفرا سٹرکچرز کیلئے مفاہمت کی یادداشت پر 2015 میں اس وقت دستخط ہوئے جب چینی صدرشی جن پنگ پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے ، چینی حکومت نے گوادر ایئر پورٹ کیلئے 259 ملین ڈالر گرانٹ کا اعلان کیا، سول ایوی ایشن اتھارٹی جو کافی عرصہ قبل ہی اس ایئر پورٹ کیلئے زمین حاصل کرچکی تھی نے 2016 میں اس اراضی کے چاروں طرف خاردار تار لگادیے تھے ،یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ گوادر ایئرپورٹ کی تعمیر سے متعلق فزیبلٹی رپورٹ ایک یورپی کمپنی نے مرتب کی تھی، اس کے بعد چین کی حکومت نے اپنے ملک کی ایک کمپنی کو اس کی جانچ پڑتال کیلئے مقررکیا، یہ چینی کمپنی اپنا کام مکمل کرچکی تھی کہ چین کو پاکستانی رہنماؤں نے کہا کہ گوادر ایئر پورٹ کو ایک جدید ترین ( اسٹیٹ آف دی آرٹ) ہوائی اڈا ہونا چاہیے ، چینی حکومت نے یہ فرمائش پوری کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ، اس کے بعد گوادر ایئر پورٹ کی فزیبلٹی دوبارہ بنانی پڑی۔ اس کے بعد گوادر منصوبے کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی، ایئرپورٹ کی تعمیر پر مامور چینی کمپنی نے مطالبہ کیا کہ اسے بجلی کے پورے مجوزہ نظام کا پلان (Electricity Plan ) فراہم کیا جائے جب چینی کمپنی کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو اس نے دوٹوک الفاظ میں بتادیا کہ جب تک اسے الیکٹرسٹی پلان فراہم نہیں کیا جائے گا وہ گوادر ایئر پورٹ پر تعمیراتی کام کا آغاز نہیں کرے گی، بہر صورت متعدد رکاوٹوں اور مسائل کے بعد پاکستان اور چین کے حکام پر مشتمل مشترکہ کمیٹی کے 7 ویں اجلاس نے سفارش کی کہ گوادر میں فوری طور پر کوئلے سے چلنے والا 300 میگا واٹ کا بجلی پلانٹ بنایا جائے ، لیکن کیوں ؟ اس لیے کہ پورے بلوچستان کو نیشنل گرڈ سے صرف 700 میگا واٹ بجلی ملتی ہے جو اس کی مجموعی ضروریات کے صرف ایک تہائی حصے کے برابر ہے ، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں موجود بجلی ترسیلی سسٹم 800 میگا واٹ سے زیادہ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، انہی مسائل کی بنا پر مشترکہ کمیٹی نے سفارش کی کہ گوادر کے پاور پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے مکمل طور پر علیحدہ رکھا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ گوادر منصوبے میں حائل ان رکاوٹوں کو دور کرنا کیا ہمارے ‘‘عظیم رہنماؤں ’’ کا فرض نہیں تھا ؟ کیا انہیں اس کام کو اولین ترجیح نہیں دینی چاہیے تھی؟ کیا محض سی پیک کو تواتر کے ساتھ‘‘ گیم چینجر’’ قرار دینا ہی کافی ہے ؟ کیا ہمارے رہنماؤں نے نہیں سوچا کہ یہ منصوبہ بجلی اور پانی کے بغیر کیسے چل سکتا ہے ؟ اس منصوبے کی راہ میں مزید بڑی رکاوٹیں پیدا ہوئیں، ان میں غیر متوقع طورپر رونما ہونے والی ایک مشکل ماحولیات سے متعلق تھی، ماحولیات کی ایجنسی ای آئی اے نے اس منصوبے کو قابل عمل قرار دینے میں پورا ایک سال لگادیا، اس کے علاوہ بھی تاخیری حربے اختیار کیے گئے ، دوسرا اہم مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ چین کی جس کمپنی کویہ پلانٹ تعمیر کرنا تھا اسے حیران کن حد تک کم ریٹ دینے پر آمادگی ظاہر کی گئی، یہ ریٹ اسی قسم کے کام کیلئے پنجاب اور دیگر علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کیلئے مقرر ریٹس سے بہت کم تھے ۔ حیرت ہے کہ ہمارے ان ذمہ داروں نے اس حقیقت پر توجہ ہی نہیں دی کہ گوادر دور دراز واقع ایک مقام ہے جہاں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں،یہاں بجلی بنانے ، اس کی ڈسٹری بیوشن اورصنعتیں لگانے کیلئے اس وقت تک کوئی بھی نہیں آئے گا جب تک کہ یہاں بجلی اور وافر مقدار میں پانی میسر نہ ہو، ان سہولتوں میں کمی ہو تو ضروری ہے کہ بجلی منصوبے یا دیگر صنعتیں لگانے والوں کو ٹیرف میں ‘‘ غیر معمولی’’ ترغیبات دی جائیں، لیکن افسوس !ہوا اس کے برعکس، اور اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ تاخیر اور مزید تاخیر، اب بظاہر ٹیرف کا مسئلہ تو حل ہوگیا ہے لیکن یہ اندازہ کرنا دشوار نہیں ہے غلطیوں سے لدا ہوا جو نظام ہمارے ملک میں رائج ہے اس نے ان منصوبوں کو کس بری طرح نقصان پہنچایا جو پورے گوادر کی ترقی کیلئے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان کو بہت تیزی کے ساتھ اقدمات کرنے ہوں گے ، انہیں اس امر کا خیال بھی رکھنا ہوگا کہ چینی حکومت بھی اصلاح احوال کیلئے کیے جانے والے ان کے اقدامات سے آگاہ ہوجائے ، انہیں چینی حکومت پر بھی واضح کرنا ہوگا کہ ان کی حکومت خلوص دل سے سی پیک کی بھرپور حمایت کرتی ہے ۔ سی پیک کے معاملات کوآئندہ عمدگی سے چلانے کیلئے ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ ایک ایسا خودمختار ادارہ بنایا جائے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بیوروکریسی کے اہم ارکان شامل ہوں، اس ادارے کی نگرانی دونوں ممالک کے پارلیمانی گروپوں کے سپرد کی جائے اور اس مشترکہ گروپ کو نہ صرف فیصلہ سازی بلکہ فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کے اختیارات بھی دیئے جائیں ۔ یہاں یہ حوالہ بے جا نہ ہوگا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ کی تعمیر میں12 سال لگے حالانکہ بقول شخصے یہ وفاقی حکومت کی ناک کے نیچے واقع ہے ، اس منصوبے پر لاگت کا اصل تخمینہ 23 ارب روپے تھا جسے سیاسی قیادت اور اعلیٰ حکام نے مختلف تدبیریں اختیار کرکے 100 ارب روپے سے زیادہ تک پہنچادیا، یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ گوادر ایئر پورٹ کو سیاسی کرگسوں اور مفاد پرست لالچی اعلیٰ حکام سے بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس کی جلد از جلد تعمیر کیلئے اس منصوبے کو مکمل طور پر چینی کنسٹرکشن کمپنیوں کے سپرد کردیا جائے ۔ ہمارے ملک میں رواں سال کے آخر تک بجلی کی طلب بڑھ کر 23000 میگا واٹ ہوجائے گی، توقعات کے مطابق اس وقت تک ملک میں بجلی کی پیداوار 45000 میگا واٹ ہو گی، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ بجلی کی ترسیل کو اولین ترجیح دے ، یاد رہے کہ سابقہ حکومت نے بجلی کی ترسیلی نظام کی توسیع کوقطعی ترجیح نہیں دی تھی، اس کی ساری توجہ سڑکوں کے منصوبوں اور نئے پاور پلانٹس پر مرکوز رہی تھی، ماضی میں نئے بجلی منصوبوں میں جو بدعنوانی کی گئی وہ نہایت شرمناک تھی، مثال کے طور پر ایک پاور پلانٹ کے ساتھ یہ معاہدہ کس قدر قابل مذمت تھا کہ اگر حکومت اس پلانٹ پر بنائی گئی پوری بجلی کی ترسیل نہ کرسکی تو یہ بجلی کمپنی کو بطور جرمانہ بھاری رقم ادا کرے گی۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے جواب طلبی کریں کہ اس نے گوادر سے تقریباً 90 کلو میٹر دور سواد ڈیم سے پانی کی پائپ لائن کو ہائی وے کی دوسری طرف لے جانے کی جازت کیوں نہیں دی؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گوادر کو جو پانی کی شدید کمی کا شکار ہے اس پائپ لائن کے ذریعے پانی کی فراہمی شروع نہ ہوسکی، گوادر کو ٹینکر مافیا سے نجات دلانے کیلئے بھی وزیر اعظم کو ٹھوس اقدمات کرنے چاہئیں، یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ یہ ٹینکر مافیا ہر ماہ گوادر کو بذریعہ ٹینکر پانی کی فراہمی کے ذریعے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کمارہا ہے ۔ موجودہ زمانے کے بارے میں سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ دور تیزرفتاری سے فیصلے کرنے اور عوامی مفادات کیلئے غیر روایتی انداز اختیار کرنے کا زمانہ ہے ، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کے اعلیٰ حکام اب بھی گزشتہ صدی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں عوام کے حقوق پامال ہورہے ہیں، ا گر وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ چین کے اخلاص کا فائدہ پاکستانی عوام کو پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ چین کے جذبے کو برقرار رکھیں تاکہ وہ سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرسکے ،حکومت کو لازمی طور پر سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل مشکلات کو ختم کرکے ‘‘ ون ونڈو آپریشن ’’ کو رائج کرنا ہوگا، یہ اقدام نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اب وہ وقت آچکا جب کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ نہ صرف گوادر بلکہ پورے بلوچستان کے ساتھ اخلاص اور توجہ ناگزیر ہوچکی ہے ، اب تک ہماری حکومتیں اور فوجی قائدین بلوچستان کے ساتھ محض زبانی جمع خرچ کرتے رہے ہیں، یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ اب یہ سب کچھ نہیں چل سکتا، اس لیے ضروری ہے کہ جو اقدامات ناگزیر ہیں ان کا تصور بالکل واضح ہو، اس کے علاوہ سی پیک کیلئے ‘‘ فوکل پرسنز ’’ کا تقرر بھی کیا جائے تاکہ جو بات بھی ہو وہ پوری ذمے داری کے ساتھ کی جائے ، ان فوکل پرسنز کو تمام معاملات میں کردار ادا کرنے کا اختیار بھی حاصل ہونا چاہیے ، اب میں سرمایہ کاروں کو ‘‘ ون ونڈو’’ کی سہولت فراہم کرنا بھی شامل ہے ۔ امتیاز گل