چینی شہریوں کا پاکستانی خواتین سے شادی کے بعد ان کے اعضا نکالنے کا انکشاف
غریب بچیوں کو پیسے دیکر شادیاں کی جاتی ہیں ،شنیلا رتھ ،چینی جعلی طور پر مسلمان بن کر شادیاں کررہے ہیں ،لعل چند قائمہ کمیٹی قانون کا اجلاس ، اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے ،خواتین تشدد سے متعلق سفارشات کی تیاری کیلئے ذیلی کمیٹی قائم
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،صباح نیوز )قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں انکشاف ہوا ہے کہ چینی شہری پاکستانی خواتین سے شادی کے بعد ان کے جسم کے اعضا نکال لیتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس چیئر مین ریاض فتیانہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ کمیٹی نے قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے اور خواتین پر تشدد سے متعلق سفارشات کی تیاری کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی ہے ۔ رکن قومی اسمبلی حسین طارق کنوینر ہوں گے ۔قائمہ کمیٹی نے صوبوں اور وفاق سے خواتین پر تشدد کے واقعات کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔ممبر کمیٹی شنیلا رتھ نے مذہب کی زبردستی تبدیلی کیخلاف قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں خواتین پر تشدد کے خلاف بنائے گئے قوانین پرعملدرآمد نہیں ہو رہا، تشدد کیساتھ مذہب کی زبردستی تبدیلی بھی بڑھ رہی ہے ۔ شنیلا رتھ نے انکشاف کیا کہ پنجاب میں خواتین چینی شہریوں سے شادیاں کر رہی ہیں، چینی شہری غریب بچیوں کو پیسے دیکر شادیاں کر رہے ہیں اور شادی کے بعد ان کے جسم کے اعضا نکال لیتے ہیں۔ممبر کمیٹی لعل چند نے کہا کہ چینی شہری جعلی طور پر مسلمان بن کر بچیوں سے شادیاں کررہے ہیں جب کہ ہندو بچیوں کے مسلمان ہوجانے کے جعلی سرٹیفکیٹ بھی بنائے جاتے ہیں۔ اجلاس میں ملتان اور چترال میں فوکر جہازوں کے حادثات پر معاوضوں کے حوالے سے جائزہ لیا گیا پی آئی اے کی جانب سے ائیر وائس مارشل نور عباس نے کمیٹی کو بتایا کہ حادثے کی صورت میں عالمی فلائٹ میں مرنے والوں کو 50لاکھ روپے فی کس اور سامان کا ایک ہزار روپے فی کلو دیا جاتا ہے ملتان حادثے کے وقت اندروں ملک مرنے والوں کو 40لاکھ رروپے ملنے کا ملکی قانون تھا ملتان حادثے میں دو جج بھی جاں بحق ہوئے تھے اس حادثے میں مرنے والوں کو 40لاکھ روپے فی کس دیا گیا جبکہ چترال حادثے میں ہلاک شدگان کے ورثہ کو 50لاکھ فی کس دیئے گئے ۔ کمیٹی نے پی آئی اے کے حادثات میں متاثرہ افراد کو معاوضہ جات کی ادائیگی کا معاملہ آ ئندہ اجلاس تک موخر کردیا۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری قانون ملائیکہ بخاری نے کہا کہ ملک بھر میں خواتین پر تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں پولیس اور پراسیکیوشن کا رویہ مناسب نہیں ہے ۔ کمیٹی کو اس معاملے پر غور کرنا چاہیے ۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف کو ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ میں تمام صوبائی حکومتوں اور صوبائی وزارت داخلہ سے خواتین پر تشدد، تیزاب گردی کے واقعات اور ان پر سزا سے متعلق معلومات فراہم کریں ۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے قوانین کو مربوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ وزارت قانون نے بتایاکہ پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی کے بعد متعلقہ محکمے کی مشاورت سے قواعد وضوابط وضع کئے جاتے ہیں تاہم قانون کے بعد اس پرعملدرآمد کو جانچنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ تمام محکموں کو واضح ہدایات دیں کہ وہ قانون کے مطابق اپنے قواعد وضوابط وضع کریں جبکہ آئندہ قانون سازی میں بھی یہ شق شامل کی جائے کہ قانون سازی کے بعد مخصوص مدت میں قواعد وضوابط بنانا ضروری ہو گا۔ قائمہ کمیٹی قانون