پاکستان کی اقتصادی حالت اب ایک المیہ بن چکی
حکومت کو پہلے ہی سال مالیاتی ٹیکس ایمنسٹی کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے ؟
(تجزیہ: سلمان غنی) ملکی و غیر ملکی کالا دھن سفید کرنے اور غیر قانونی اثاثے قانونی بنانے کیلئے وفاقی کابینہ سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی منظوری کے بعد اس کا اعلان کر دیا گیا ،مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا نہیں بلکہ اثاثوں کو معیشت میں ڈال کر انہیں فعال بنانا ہے ۔ اس کا مقصد لوگوں کو ڈرانا دھمکانا نہیں اس میں ہر پاکستانی حصہ لے سکے گا ۔ مذکورہ اعلان کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایمنسٹی سکیم کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح کی ایمنسٹی سکیم کس حد تک اپنے مقاصد میں کارگر رہتی ہے ؟ کیا ہمارا ٹیکس سسٹم ناکام اور ناکارہ ہو چکا ہے ؟ کیا حکومتی کل پرزے ٹیکس جمع کرنے میں سنجیدہ رہے ہیں؟ پاکستان کی اقتصادی حالت اب ایک المیہ بن چکی ہے ۔ ماضی کی حکومتوں کا خراب طرز حکمرانی اور ملک میں ٹیکس کلچر کے نہ ہونے ، انڈسٹری کیلئے سازگار ماحول نہ ہونے اور ملک میں بد امنی اور دہشت گردی اثرات اس ملک کی معاشی شہہ رگ کو اپنے نرغے میں لے چکے ہیں۔ ہر اپوزیشن حکومتِ وقت پر بے پناہ تنقید کرتی ہے ۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے آگے سر نگوں ہونے کے طعنے دیتی ہے ۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم لانے کو اشرافیہ کیلئے تحفہ قرار دیتی ہے اور پھر جب خود حکومت میں آتی ہے تو پھر یہ چکر الٹا چل پڑتا ہے اور ماضی کی حکومت آج کی اپوزیشن بن کر حکومت پر آئی ایم ایف کے آگے سر نگوں ہونے کے نشتر چلاتی ہے ۔ ملک میں در حقیقت سیاست اتنی منافقت زدہ ہو چکی ہے کہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان مشکل اور صحیح اور برے فیصلوں میں تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ موجودہ حکومت کو اپنے پہلے ہی سال اس مالیاتی ٹیکس ایمنسٹی کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے ؟ کیا اب سمجھا جائے کہ حکومت ایف بی آر کے روایتی ٹیکس وصولی کے نظام کو بیکار سمجھ رہی ہے ؟ کسی بھی ریاست کے مؤثر اور منظم بلکہ ایک زندہ ریاست کا پیمانہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں ادارے عوام سے ٹیکس کتنا جمع کر رہے ہیں؟ ٹیکس دینے کا پیمانہ در حقیقت ریاستی نظام اور ریاستی وجود کی گواہی ہوتا ہے ۔ ٹیکس دینے کا مطلب ہوتا ہے کہ عوام یقین رکھتے ہیں کہ ان سے لیا گیا پیسہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے ۔ مگر ملک پاکستان میں یہ ‘‘گنگا ’’ الٹی بہہ رہی ہے ۔ اس ملک میں ٹیکس چوری، اثاثے چھپانا، بے نامی جائیداد اور آف شور کمپنیز بنانا ہر دوسرے شہری کی خواہش ہے ۔ ٹیکس ہدف میں خسارہ تقریباً 4 سو ارب روپے کو سامنے رکھتے ہوئے ایمنسٹی سکیم جیسا کڑوا گھونٹ حکومت نے بھرنے کا سوچا ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ماضی قریب میں دی گئی سکیم سے بھی کوئی خاص ریونیو اکٹھا نہیں ہو سکا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ملک میں بڑے ٹیکس چور اور مافیاز سمجھتے ہیں کہ حکومت میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ ٹیکس ان سے لے سکے یا قانون کی عملداری ان پر نافذ کر سکے ۔ جس طرح اس حکومت نے بڑے دعوؤں کے بعد گھٹنے ٹیکے ہیں تو اشرافیہ کو اب ٹیکس ایمنسٹی سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی خواہش بھی نہیں ہوگی۔ ظاہر ہے ایسے پیشہ ورانہ ٹیکس چور جو پہلے ہی حکومتی رٹ کو چیلنج کیے ہوئے ہیں انہیں اب مزید کیا دلچسپی ہوگی۔ ہاں البتہ اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے عوام میں یہ احساس ضرور جاگے گا کہ وہ بھی جتنا ہو سکے ٹیکس نیٹ سے بچ جائیں اور جب وقت آئیگا کسی نہ کسی ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا لیں گے ۔ اب سکیم کا اس وقت بڑا فائدہ یہی ہوگا کہ آئندہ بجٹ سے پہلے پہلے کچھ ٹیکس ریونیو کی وصولی بہتر ہو جائیگی اور حکومت کسی بڑی مالیاتی شرمندگی سے بچ جائے گی ۔ صورتحال کھل کر بتا رہی ہے کہ عوام کو عمران خان کے آنے کے بعد بھی احساس نہیں ہوا کہ ایک متبادل برسر اقتدار آ چکا ہے جو ان کا معاشی نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا اب ٹیکس دینے کیلئے ایف بی آرکا دروازہ کھٹکھٹایا جائے ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ پہلے والے ‘‘سٹیٹس کو’’ کے مبینہ چور ان سے بہتر نکلے جنہوں نے ٹیکس ہدف 4 ہزار ارب روپے طے بھی کیا اور وصول بھی کر کے دکھایا۔ لہٰذا اب کھسیانی بلی کھمبا نوچنے چلی ہے اور ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کر رہی ہے ۔ اپوزیشن عمران کے اس بڑے یوٹرن کو ‘‘حلال ایمنسٹی’’ کا طعنہ دے رہی ہے اور حق بجانب پوچھتے ہیں کہ ماضی کی ٹیکس ایمنسٹی حرام اور نئے پاکستان میں ٹیکس ایمنسٹی حلال کیسے ہو گئی؟ تیری زلف میں پہنچی ، تو حُسن کہلائی وہ تیرگی ، جو میرے نامہِ سیاہ میں تھی تجزیہ: سلمان غنی