جنوبی پنجاب صوبہ :سنجیدہ پیش رفت نہ ہو سکی
ایک مرتبہ پھر جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے سیاست کا آغاز ہو گیا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی قرار داد منظور ہوئی لیکن اپوزیشن تقسیم نظر آئی
دنیا بھر میں گورننس کو یقینی بنانے کیلئے اپنے عوام کی آنر شپ اور انہیں ممکنہ سہولتوں کی فراہمی کیلئے نئے صوبوں کی تشکیل ہوتی ہے ۔پاکستان میں بھی نئے صوبوں کی تشکیل کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے ۔مگر بد قسمتی سے صوبوں کی تشکیل کے مسئلہ کو محض سیاسی نعروں اور مفادات کیلئے استعمال کیا گیا مگر عملا ًمنتخب حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے اس پر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں کی۔ 2018ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبہ بناؤ تحریک کے نام سے بعض انتخابی گھوڑوں نے انتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کیا تو صوبہ محاذ کے قیام کے چند ہی روز بعد اسکا باقاعدہ تحریک انصاف کے ساتھ الحاق ہو گیا اور تحریک انصاف نے اعلان کیا کہ حکومت بننے کی صورت میں سو روز کے اندر اس حوالے سے بڑی پیش رفت ہوگی ۔ لیکن ابھی تک اس پر سنجیدہ پیش رفت تو نہیں ہوئی البتہ ایک مرتبہ پھر جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے سیاست کا آغاز ہوا ہے ،حال ہی میں قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی قرار داد منظور ہوئی۔ لیکن اس پر خود اپوزیشن بھی تقسیم نظر آئی ہے کیونکہ جنوبی پنجاب کی حمایت میں پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کی حمایت کی جبکہ مسلم لیگ ن نے اس کی مخالفت کی۔ بعد ازاں مسلم لیگ ن کے ترجمان یہ کہتے نظر آئے کہ انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ہم جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے عوام کے ساتھ ہیں مگر اس کے ساتھ بہاولپور صوبہ بھی بننا چاہئے ، اس حوالے سے عوام کے ساتھ ہیں مگر اس کے ساتھ بہاولپور صوبہ بھی بننا چاہئے ۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا یہ بیان آ چکا ہے کہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے ہمارا بل قومی اسمبلی میں موجود ہے اور اس بل کی مخالفت خود پی ٹی آئی کے وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری نے کی، لہٰذا شاہ محمود قریشی اسمبلی ریکارڈ کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے اس حوالے سے اپنی پریس کانفرنس میں جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے آئینی ترمیم پر زور دیتے ہوئے دیگر جماعتوں سے تعاون کی بات کی ہے ۔ مذکورہ بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب کیلئے پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے قرار داد پاس ہونا ضروری ہے اور یہ قرارداد کوئی ایک جماعت پاس کروانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت بھی ن لیگ نے جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور صوبہ کی بات کر کے ان کی سیاسی چال نہیں چلنے دی اب چونکہ تحریک انصاف پر ایک اخلاقی اور سیاسی دباؤ موجود ہے کہ انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبہ بناؤ تحریک کے ساتھ الحاق کیا اور وعدہ کیا کہ حکومت بننے کی صورت میں سو دن کے اندر جنوبی پنجاب کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوگی۔ مسلم لیگ ن ، جنوبی پنجاب صوبہ بناؤ تحریک میں جانے والے ایک خاص پلاننگ پر عمل پیرا تھے ۔لہٰذا جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے بڑی پیش رفت سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب کے عوام کی بجائے ان کے منتخب اراکین اسمبلی کا احساس محرومی دور کر دیا اور انہیں اہم وزارتوں سے نوازا گیا اور انہوں نے نئے صوبہ کے حوالے سے خاموشی اختیار کر لی اور سارا دباؤ خود تحریک انصاف کی حکومت پر آ گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے خود حکومت میں شامل ق لیگ بھی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ منڈی یزمان سے ق لیگ کے رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ نے کھل کر بہاولپور صوبہ کی حمایت کی اور اب جنوبی پنجاب صوبہ کی مخالفت شروع کر دی۔ ایک تاثر یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے ساتھ سنٹرل پنجاب کی حکومت پر کمپرومائز ہو سکے گا۔ البتہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ مسلم لیگ ن اس کیلئے تیار ہوگی دوسری جانب اگر پنجاب کو در پیش مسائل اور خصوصاً جنوبی پنجاب میں ترقی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب ایک قابل تقسیم اکائی کا روپ دھار چکا ہے ۔ بلکہ ملک بھر میں گورننس کو یقینی بنانے کیلئے نئے صوبوں کی تشکیل نوشتہ دیوار ہے اور اب ایک حقیقی نئے پاکستان کی تکمیل اس صورت میں ممکن ہے کہ گورننس بہتر ہو۔ عوام خوشحال ہوں ، ایسے سلگتے مسائل کا حل نکالا جائے لیکن یہ سیاست بازی کی صورت میں ممکن نہیں اس کیلئے سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔ نیک نیتی اور خلوص کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور پنجاب کی تقسیم کی صورت میں یہ معاملہ صرف پنجاب تک محدود نہیں ہوگا۔ یہ پنجاب سے شروع ہوگا اور اس پر بیان بازی قراردادوں اور اعلانات سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہو گی کہ سیاسی قیادت سر جوڑے ، اپنے اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو اور پاکستان میں گورننس کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے اپنی ذمہ داری پورے کرے ۔ اگر سیاسی جماعتوں نے مقامی حکومتوں، بلدیاتی سسٹم کو ہی مؤثر، مضبوط اور با اختیار کیا ہوتا تو آج صوبوں کی تقسیم ناگزیر نہ ہوتی اور لوگوں کے سلگتے مسائل کا حل ممکن بنتا۔ تجزیہ:سلمان غنی