نئے سوشل کنٹریکٹ کی تجویز، پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے
جمہوری سسٹم مضبوط ہے تو جمہوریت کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچتے ؟
(تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے رہنما اورسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ملک کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے مسلسل نئے سوشل کنٹریکٹ پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نئے ’’رولز آف گیمز‘‘ کے بعد ہی آزادانہ اور شفاف انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ اس کے نتیجہ میں ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام قائم ہو سکے ،نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات اس سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی بھی کر چکے ہیں اور اعلیٰ سطح کے حکومتی و سیاسی حلقوں میں بھی ملک کو درپیش گھمبیر مسائل کے حوالے سے یہ چہ میگوئیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں کہ ملک کا موجودہ جمہوری سسٹم کارگر نظر نہیں آ رہا اور آخر کیا وجہ ہے کہ جمہوری حکومت بھی ہے ،پارلیمنٹ بھی موجود ہے مگر جمہوری سسٹم ڈیلیور کرتا کیوں نظرنہیں آ رہا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ جمہوری سسٹم کیوں ڈیلیور نہیں کر پا رہا اور کیا واقعتاً ملک میں کسی نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے ؟ نیا سوشل کنٹریکٹ کس بنیاد پر ؟کیا آئین وقت کی نزاکتوں پر پورا نہیں اتر پا رہا؟ مختلف اوقات کار میں مختلف سیاستدانوں کی جانب سے سوشل کنٹریکٹ کی بات ہمیشہ اس تناظر میں کی جاتی ہے کہ ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس کی بنا پر جمہوری سسٹم ڈیلیور نہیں کر پا رہا، اس کی بڑی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ ادارہ جاتی بحران ہے ، آئین پاکستان کے اندر عام اداروں کو حدود و قیود کا پابند بناتے ہوئے ان کے اختیارات کی وضاحت کردی گئی ہے مگر جو بھی حکومت وجود میں آتی ہے وہ اپنے آپ کو حدود و قیود کا پابند بنانے کی بجائے کریز سے باہر آ کر کھیلنا چاہتی ہے اور اس بنا پر پھر کچھ ادارے بھی اپنے اختیارات متاثر ہوتا دیکھ کر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں جس بنا پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس میں منتخب حکومتیں اپنے مینڈیٹ کے مطابق عمل پیرا نہیں ہوتیں اور ایک انتشار ،خلفشار اور محاذ آرائی کی صورتحال طاری ہو جاتی ہے اور پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے نفسیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس کے براہ راست اثرات خود حکومتی کارکردگی پر پڑتے ہیں اور وہ ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتی، غالباً نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات اسی تناظر میں کی جا رہی ہے کہ ملک کے اندر نئے رولز آف گیمز طے کئے جائیں تاکہ گورننس کا خواب حقیقت بن سکے اور آزادانہ منصفانہ انتخابات کے ذریعہ ایسی حکومتیں وجود میں آئیں کہ ان کی ساکھ متاثر ہو اور نہ ہی اپوزیشن ان کے کسی کردار کو چیلنج کر سکے لیکن اگر نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات آئین پاکستان میں کسی بڑی تبدیلی کیلئے کی جا رہی ہے تو آج کے حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ، اس لئے کہ آئین ہی پاکستان میں وفاق پاکستان کے نظریاتی تشخص ،جمہوری مستقبل سمیت تمام اہم ایشوز اور اداروں کے طریقہ کار پر رہنما اصول فراہم کرتا ہے اور نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات بھی ان بڑی جماعتوں کے حوالے سے کی جا رہی ہے جو ہر حوالے سے آئین پاکستان کے تحت جمہوری سسٹم چلانے کی علمبردار ہیں اور 1973 کے آئین کو نسخہ کیمیا سمجھتی ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی کی طرح مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی بھی اپنی جماعت کے ان سنجیدہ رہنماؤں میں سے ہیں جو خالصتاً جمہوری اور سیاسی سوچ و اثرو رسوخ رکھتے ہیں اور ملک میں جمہوری سسٹم کی مضبوطی کو ہی ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام کا ذریعہ سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی جانب سے آنے والی اس تجویز سے سنجیدگی سے نمٹا جائے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے یہ رہنما نئے سوشل کنٹریکٹ کے حوالے سے اپنی اپنی جماعت کے اندر اتفاق رائے پیدا کریں اور پھر اس تجویز پر پارلیمنٹ کے اندر سنجیدہ بحث ہونی چاہیے لیکن وہ اس امر کو نظرانداز نہ کریں کہ آج آئین پاکستان اور خصوصاً آئین کا نظریاتی تشخص بعض بیرونی قوتوں کو کھٹک رہا ہے او روہ اس نظریاتی تشخص پر اثرانداز ہونے کیلئے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے آئے ہیں،اس آئین کی اصل روح قرارداد مقاصد سے ہے جو پاکستان کی اصل پہچان ہے لیکن اس کے لئے یہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ آج کی صورتحال اور خصوصاً بعض اہم اور حساس ایشوز پر بیرونی طاقتوں کی جانب سے آنے والے دباؤ کے بعد نئے سوشل کنٹریکٹ کے حوالے سے آئین پاکستان کو چھیڑنا مناسب رہے گا البتہ یہ بات اہم ضرور ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر سے جمہوری سسٹم کی مضبوطی کیلئے بعض تبدیلیوں کی بات ہو رہی ہے ۔ ایسا کیوں ہے اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ باوجود جمہوری حکومتوں کے قیام کے سیاسی ٹھہراؤ نہیں آ پا رہا، سیاسی انتشار اور خلفشار کے آگے بند نہیں باندھا جا رہا اور نئی حکومت وجود میں آتے ہی اپوزیشن حکومت کی ساکھ اور خصوصاً انتخابی عمل کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات کا سہارا لے کر حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیتی ہے اور نئی بننے والی حکومت اپنے مینڈیٹ اور پروگرام پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپوزیشن سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے میدان میں آ جاتی ہے خصوصاً تحریک انصاف نے اپنی سیاست کو مضبوط بنانے کیلئے 2013کے انتخابات کی ساکھ پر اثرانداز ہونے کیلئے لانگ مارچ کا آپشن اختیار کیا اور پانچ سال تک منتخب حکومت کو گرانے کیلئے قانونی و غیر قانونی سیاسی و غیر سیاسی تمام ممکنہ ہتھکنڈوں کا استعمال کیا اور اس حوالے سے انہیں بعض اور قوتوں کی بالواسطہ حمایت حاصل رہی اور غالباً یہی وجہ تھی کہ 2018 کے انتخابات میں واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود انہیں مسند اقتدار پر بھی بٹھایا گیا۔ پہلے پہل تو مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کو اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور اپنے عہدوں کا حلف نہ اٹھانے کی تجویز دے کر بڑا سیاسی بحران کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن انتخابات کے حوالے سے شدید تحفظات رکھنے کے باوجودبڑی جماعتوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے نہ صرف نتائج کو قبول کیا بلکہ حکومت کو بھی راستہ دیا لیکن بعدازاں احتساب کے نام پر اپوزیشن کو کوسنے کی تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود اب بھی اپوزیشن ایسا کوئی طرزعمل اختیار کرنے سے گریزاں ہے جس سے ملک میں جاری جمہوری سسٹم کو کوئی نقصان پہنچے کیونکہ وہ حکومتی کارکردگی سے نالاں ہونے کے باوجود یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت کو چلتا کیا جائے ۔ شاہد خاقان عباسی نے تو کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات کی وہاں انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگر لوگ حکومت سے مطمئن نہیں تو وہ پانچ سال پورے کرے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالات تشویشناک ہیں اور گورننس کا ماڈل بھی ناکام ہو گیا ہے البتہ احتسابی عمل کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی کی اس تجویز کو وزنی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں وہ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ میں، احسن اقبال اور مفتاح اسماعیل ملزم ہیں تو ہم دعوت دیتے ہیں کہ نیب یا عدالت میں ان سے کیمرا کے سامنے تحقیقات کی جائے اور قوم کو پتا چلے کہ ہم کیسے ملزم ہیں؟ تینوں رہنماؤں کے کیس عدالت میں ہیں اور عدالت سے ان کے حوالے سے کرپشن پر نیب سے سوالات کئے تو نیب عدالت کو مطمئن نہیں کر سکی اور انہیں ضمانت مل گئی جس سے تاثر عام ہوا کہ ان کے خلاف مقدمات کسی کرپشن یا لوٹ مار پر نہیں محض سیاسی طور پر دبانے کیلئے تھے اور اس کے بعد باوجود ان کی جانب سے جرات مندانہ انداز میں اپنے موقف کا اظہار اور احتسابی عمل پر ان کی شدید تنقید عوامی اور سیاسی سطح پر پذیرائی کا باعث بن رہی ہے اور وہ ن لیگ کی متبادل لیڈرشپ کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں لہٰذا ایک جانب جہاں نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت پر زوردیا جا رہا ہے تو وہاں سیاسی قوتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ملک میں موثر احتسابی عمل کے خلاف حقیقت پسندانہ حکمت عملی اختیار کریں اور ایسی قانونی سازی ہو جس کے ذریعہ سیاسی انتقام کی بجائے واقعتاً کرپٹ عناصر کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جائے ۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ نیب کے قانون پر نظر ثانی کرتیں مگر ان کی غفلت اور سستی نے انہیں خود اس میں پھنسا کر رکھ دیا لہٰذا اب یہ گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے کہ وہ احتساب گورننس اور جمہوری سسٹم کی مضبوطی کیلئے اپنا سنجیدہ اورمضبوط کردار ادا کریں تاکہ ملک کو آگے لے جایا جا سکے جہاں تک جمہوری سسٹم ڈیلیور کرنے کا سوال ہے تو یہ خود سیاستدانوں اور حکمرانوں پر فرض ہے کہ آخر کیوں یہاں جمہوریت ڈیلیور کرتی نظر نہیں آتی،حکمرانوں کا ہاتھ کس نے پکڑ رکھا ہے ۔ اگر پاکستان میں جمہوریت ڈیلیور کرتی تو آج ملک کی ایک بڑی موثر آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی نہ گزار رہی ہوتی اور نئی نسل میں مایوسی، حالات میں بددلی اور ملک میں بے چینی کے سائے نہ منڈلاتے نظر آتے ۔