کورونا کے بعد دنیا کیسی’پاکستان کا کردار کیا ہوگا؟
دنیا کوسابقہ تصورات بدلنا، انسانوں پرسرمایہ کاری،غریب ممالک کوریلیف دینا ہوگا ہم گرکربھی اٹھ سکتے ہیں، ذاتیات سے نکلنا ہوگا، وزیراعظم لیڈر، پہلے خودفیصلہ کریں
(تجزیہ:سلمان غنی) کورونا کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر دنیا میں اس سے نمٹنے کیلئے ہونیوالے اقدامات کے ساتھ ہی یہ سوچ اور اپروچ بھی سامنے آنے لگی ہے کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں بننے والی صورتحال میں مستقبل کی دنیا کیا ہوگی۔ کیا وہی معمولات اور رجحانات چل پائیں گے جو کورونا وائرس کی صورتحال سے پہلے تھے ۔ کیا وہی ترجیحات وپالیسیاں قائم رہیں گی جن پر عالمی قوتیں اور ترقی پذیر ممالک کاربند تھے کیونکہ کورونا وائرس کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال اور تباہ کاریوں نے یہ بات تو ظاہر کردی ہے کہ بڑے بڑے ممالک کی صلاحیتیں اور پالیسیاں بری طرح بے نقاب ہوئی ہیں۔ یہ بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ وہ بڑے حادثات سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کی حکومتوں اور معاشروں کو اپنی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے ، آنیوالے حالات میں انہیں معیشت’ معاشرت’صحت کے سسٹم’ انسانوں کے عمل پر سرمایہ کاری کے حوالہ سے بہت کچھ سوچنا پڑے گا ۔ اب وہ ماضی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ’ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے اور دیوار سے لگانے کے بجائے ایسی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے جو ایک دوسرے سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہوں، خصوصاً انسان اور انسانیت کے حوالہ سے انہیں اپنے اپنے تصور کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر کے مالیاتی ادارے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں ترقی پذیر اور خصوصاً غریب ممالک کیلئے اب کچھ غیر معمولی کرنا ہوگا۔ جن میں ان کیلئے بڑے ریلیف پیکیج کے ساتھ ان پر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے یا انہیں معاف کرنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔ جہاں تک ہمارے جیسے ممالک کا تعلق ہے تو یہاں پہلے ہی معیشت ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار رہی ہے ، اب بڑا سوال یہ سامنے آیا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنا تو اپنی جگہ لیکن کیا ہم اپنی معیشت کی بحالی ممکن بنا پائیں گے ؟۔ کیا ہم معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں گے اور اس ساری صورتحال میں کورونا کے متاثرین کا ریلیف ،ان کیلئے خوراک ،ادویات کی فراہمی اوران کیلئے روزگار کی فراہمی کا عمل چل سکے گا کیونکہ یہ سب کچھ اپنے وسائل کی بنیاد پر ممکن نظر نہیں آتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب ہمارے جیسے ملکوں کے حکمرانوں کے سانس پھولے نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب ان پر بڑادباؤ یہ ہے کہ اگر اس آفت سے ہم نکل بھی جاتے ہیں تو کیا دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو پائیں گے ۔ یہی وہ خطرات’ خدشات ہیں جن کی بنا پر بڑا سوال یہ نظر آ رہا ہے کہ اب اپنی اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے انسانوں پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی ۔ آنے والے حالات اور معاملات اب کورونا وائرس سے پہلے کی ترجیحات کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ کیا اب دنیا کو سرمایہ دارانہ سسٹم کے تحت چلایا جا سکے گا جس میں انسانوں کے مقابلہ میں سب کچھ ہی معیشت اور سرمایہ کو سمجھ لیا گیا تھا؟۔ کورونا وائرس نے ہمارے قومی صحت اور صحت عامہ کے سسٹم کو بری طرح بے نقاب کر دیا، ہنگامی صورتحال میں ہمارے ہسپتالوں میں علاج کیلئے نہ تو کوئی مناسب بندوبست تھا اور نہ ہی ڈاکٹرز کیلئے کٹس اور ماسک و دستانے موجود تھے ، کورونا زدہ اور اس کے نتیجہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری حکومت و ریاست کی ترجیحات میں عام آدمی کی حالت زار بہت پیچھے رہی۔ صرف صحت کے شعبہ کو ہی اٹھا کر دیکھ لیں ہمارے طرزعمل نے بنیادی نوعیت کے اس شعبہ کا کس بے دردی سے استحصال کیا۔ صحت عامہ کیلئے بجٹ میں مختص کئے جانے والے اربوں کے فنڈز کا زیادہ استعمال انتظامی اخراجات تک محدود رہا ۔کورونا کی تباہ کاریوں پر دنیا کیا کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا البتہ پاکستان کے حوالہ سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہاں اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور خصوصاً عام آدمی کی صحت’ تعلیم اور دیگر سہولتوں کو اب اہمیت دینا ہوگی۔ لاک ڈاؤن کے باعث ہماری معیشت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے ۔ اگر اس موقع کو غنیمت جان کر اپنے عوام کی حالت زار میں بہتری اور ان کیلئے انسانی سہولتوں کی فراہمی کا کوئی بندوبست کر لیا جائے تو آنے والے حالات میں پاکستان کا رخ درست کیا جا سکتا ہے ۔ ابتر معاشی صورتحال کے باوجود ہمارے اندر اتنا دم خم موجود ہے کہ ہم گر کر بھی اٹھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی مین پاور ہے جو قوت بازو پر انحصار کر کے ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے ۔ خصوصاً ہمارے ہاں ایک نہایت ذہین نوجوان نسل ہے جو پاکستان کے حالات میں تبدیلی کیلئے بنیادی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس سارے عمل کیلئے حکومت کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا پڑے گا۔ اپنے اقدامات اور اصلاحات کو عام آدمی کی حالت زار سے مشروط کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ جن قوموں نے دنیاکی دوڑ میں آگے جانے اور کچھ کر دکھانے کا عزم کیا وہ سرخرو رہیں۔ آج کا پاکستان نیوکلیئر پاکستان ہے ، یہ 22کروڑ جیتے جاگتے لوگوں کا ملک ہے ۔ بدقسمتی سے یہاں عوام کی طاقت کا درست سیاسی استعمال ہوا نہ معاشی حوالہ سے ان پر اعتماد کیا گیا۔ ایک نیو کلیئر پاور ہونے کیساتھ معاشی حوالہ سے مضبوط پاکستان ہی مستقبل کے چیلنجز سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے لیکن اس کیلئے سیاست سے بالاتر ہونا پڑے گا۔ ذاتیات سے نکلناہوگا اور پاکستانیت کے جذبہ کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ دنیا کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بڑے فیصلے بڑی لیڈرشپ کرتی ہے اور اس کیلئے اسے عوام کی تائید و حمایت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہٰذا وزیراعظم عمران خان بڑی جنگ کیلئے عوام کی جانب سے کسی فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے پہلے فیصلہ خود کریں ۔ عوام نے کمانڈر عمران خان کو بنایا ہے اور انہیں ہی بتانا ہے کہ جنگ کیسے لڑنی ہے ۔